ہمارے محلے گائوں شہر اور قصبوں میں کچھ کردار بہت مشہور ہوتے ہیں۔اُن کرداروں کے نام اکثر جگہ ایک ہی ہوتے ہیں مثلاََ پپو ، بخشو اور چھوٹو۔یہ وہ کردار ہیں جن سے مجھ سمیت تمام محلے والے اپنی بساط کے مطابق کام لیتے ہیں ۔ارے بخشو پانی لے آ، ارے بخشو بچوں کو سکول چھوڑ آ،ارے بخشو گاڑی تو واش کر دے اور اسی طرح کے ہزاروں کام یہی بخشو سر انجام دیتا ہے۔اسی طرح کے کردار ہماری مارکیٹوں میں بھی پائے جاتے ہیں ۔ہمارے موٹر سائیکل مکینک اور کار مکینک نے ایسے ہی کرداروں کومعمولی معاوضے کے ساتھ نوکری پر رکھا ہوتا ہے۔پورا دن کام کروا کر پچاس یا سو روپیہ احسان سمجھ کر دیا جاتا ہے ان کرداروں نے ہمارے معاشرے کی بے حسی اور منافقت کو کھل کر سامنے لایا ہے ۔ہماری خواہش ہوتی ہے اپنے بچوں کو ڈاکٹر ، انجینئر اور وکیل بنایا جائے اُن کو تعلیم اور آرام کے تمام تر وسائل مہایا کیے جائیں لیکن بخشو، پپو اور چھوٹو سے کام لیتے وقت ہمارے اندر کا باپ، بھائی اور دوست کہاں سو جاتا ہے کاش ہماری سوچ یہاں بھی وہی ہوجائے جیسے ہماری اپنے بچوں کے لئے ہوتی ہے۔
جھوٹ کہنا ہو کسی سے تو بہانے کتنے
جب چھپانی ہو حقیقت تو فسانے کتنے
اگر حکومتی سطح پر نظر ڈالی جائے تو وہاں بھی قانون تُو موجود ہے مگر اُس پر عمل درآمد کے لیے کچھ فرشتے درکار ہیں جو پچھلے 70 سال سے پاکستان پر نازل نہیں ہوسکے۔ہمارے آئین اور لیبر قوانین میں 14سال سے کم عمر بچوں سے محنت مزدوری کروانا جرم ہے۔ ایمپائمنٹ آف چلڈرن ایکٹ 1991کے تحت 14سال سے کم عمر کو بچوں کی فہرست میں شامل کیاجاتا ہے۔ہمارے آئین میں 14سال کی حد موجود ہے البتہ اٹھاروئیں آئینی ترمیم کے بعد اس کو بڑھا کر 16سال کردیا گیا ہے ۔
آرٹیکل 25(A) کے تحت حکومت وقت5 سال سے16تک کے بچوں کو مفت تعلیم فراہم کرنے کی پابند ہے۔مفت تعلیم فراہم کرنے کا مطلب یہی ہے کہ کوئی بھی بچہ 16 سال کی عمر سے پہلے کسی بھی قسم کی ملازمت یا پیشہ اختیار نہیں کر سکتا۔مگر افسوس یہاں کے افسران ، حکمران اور ججز کے گھرانوں میں کام کرنے والے ملازمین کی کثیر تعداد 16 سال سے کم عمر بچوں کی ہے۔ طیبہ تشدد کیس اس کی زندہ مثال ہے۔
ستم تو یہ ہے کہ تمام تر قوانیں کے ہوتے ہوئے ایک سروے کے مطابق تقریباََ گیارہ ملین بچے معمولی معاوضے پر محنت مزدوری کر رہے ہیں اور اس میں سے پچاس لاکھ بچے وہ ہیں جن کی عمر دس سال سے بھی کم ہے۔یہ ہمارے معاشرے اور حکمرانوں کے لیے ایک لمحہ فکریہ ہے۔
اب اگر ریحام خان کے قابل ستائش اقدامات کے حوالے سے بات کی جائے تو پچھلے مہینے عوام کی کثیر تعداد نے ریحام خان کی قیادت میںاسلام آباد کلثوم ہاسپیٹل سے چائنہ چوک تک چائلڈ لیبر کے خلاف ماشوم واک کے نام سے ایک واک کا انعقاد کیا۔ یہ واک اپنی نوعیت کی ایک منفرد واک تھی جو بچوں کے حقوق کے حوالے سے نکالی گئی تھی۔اس واک کے اختتام پر جب ایک صحافی نے ریحام خان سے پوچھا کہ آپ صرف واک ہی کریں گی یااس پر کام بھی نظر آے گا۔ جس پر ریحام خان کا جواب تھا کہ آپ بہت جلد عملی اقدامات کا بھی مشاہدہ کریں گے۔
ریحام خان ایک ایسا ادارہ بنانے جا رہی ہیں جو ہماری حکومت اور بلخصوص آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ہوگا۔ ریحام خان فائونڈیشن کے زیر اہتمام ایک ایسا ادارہ بنایا جا رہا ہے جو چائلڈ لیبر کے خلاف آواز اٹھانے کے ساتھ ساتھ ان معصوم بچوں کو مفت تعلیم ، فوڈ اینڈ سیکیورٹی اورمختلف انواع و اقسام کے ہنر بھی سکھائے جائیں گے جوکہ اُن کو مستقبل میںبھی کام آسکیں گے۔یہ بچے تعلیم کے علاوہ تمام غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیں گے جوکہ ادارے ہی کے اندر موجود ہوں گی۔
یہ ایسے اقدامات ہیں جو ہماری حکومت کو کرنے چاہیں مگر افسوس حکومت اس طرف توجہ نہیں دے رہی جبکہ ریحام خان اور اُن کی ٹیم اس حوالے سے بہتر انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔بہت جلد ریحام خان فائونڈیشن فنڈ ریزنگ کے حوالے سے ایک پروگرام ترتیب دینے جارہی ہے جس میںاُن کو میری آپکی اور ہر صاحب استطاعت پاکستانی کی بھرپور مدد درکار ہے۔ریحام خان کی ٹیم ایک پروفیشنل ٹیم پر مشتمل ہے جس میں شاکر عباسی،میرواعظ،وسیم عباسی اور بلال خان جیسے محنتی لوگ موجود ہیں جو دن رات محنت کے ساتھ تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے اپنے اور ریحام خان کے اس خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لیے کوشاں ہیں ۔رب کریم آپ کو اس نیک مقصد میں کامیاب کرے۔ہماری نیک خواہشات اور دعائیں آپ اور آپکے اس مشن کے ساتھ ہیں اور رہیں گی اور میں اُمید کرتا ہوں کہ ہماری حکومت بھی بہت جلد چائلڈ لیبر کے خلاف بھرپور اقدامات کا آغاز کرے گی۔