اے خانہ برانداز چمن کچھ تو ادھر بھی

وزیراعظم پورے پاکستان کے عوام کے وزیراعظم ہیں اور ایک ایسے ملک کے وزیراعظم ہیں۔ جو اسلامی نظریہ قوم اور قومیت کے تحت اس صفحہ ہستی پر وجود میں آیا ے اس ملک کا دستور آئین اور قانون بہت سے ایسے مطالبات اور تقاضے رکھتا ہے جو دیگر بین الاقوامی تہذیب و تمدن اور آئین و قانون سے مختلف ہیں۔بین الاقوامی مملکتوں میں کچھ ایسے ممالک بھی ہیں جو اپنی تہذیبی اور ثقافتی علامتوں کے ساتھ اپنی انفرادی ملکی و ملی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کے ہاں اکثریتی آبادی کے اعتقادات، خیالات اور زندگی کے رویوں کو بہرحال پیش نظر رکھتے ہوئے دستور و آئین کا مزاج مرتب کیا جاتا ہے۔اور کچھ ممالک ایسے بھی ہیں جہاں پر اپنے تراشیدہ تہذیبی و قانونی ضابطے ہیں اور ان ضابطوں کے مقابلے میں بہت سے بین الاقوامی اخلاقی ضابطوں کو پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔امریکہ،اسرائیل، بھارت اس کی نمایاں مثال ہیں۔ ان کادھرم و اخلاق اور تہذیب ان کی اپنی تعبیراتی کائنات ہے۔اقوام دیگر اور بالخصوص مسلمانوں کیساتھ ان کا قولی و عملی رویہ بھی ان کی اپنی متعصبانہ اور جابرانہ خود ساختہ تعبیرات کا عملی مظاہرہ ہوتا ہے امریکہ نے بہت سے مسلمان ممالک کی آزادی اور خودمختاری پامال کرنے کیلئے نجانے کتنے جتن کئے اور ان کو بے اخلاقی و انسانیت دشمن دلائل کی کمزور بنیادوں پر استوار کرتے ہوئے مسلم کش اقدامات کو رواج دیا۔ اس کی خفیہ جاسوسی تنظیم سی آئی اے کی خفیہ ضرب کاری نے کتنے ہی آزاد ممالک کی زندگی مفلوج کی ہے اور امریکہ کے ہیبت کدہ جیل خانوں میں انسانی حقوق کے علمبرداروں کو قید کر کے رکھا ہے اور کتنی ہی علانیہ خفیہ اور نیم معروف تنظیموں کوکتنے بھیانک لبادے اوڑھا کر مسلم کشی کا مقتل سجایا ہے۔ داعش پر کس ملک کا انسان دشمن سایہ ہے دنیا کا کوئی باشعور انسان اس سے بے خبر نہیںہے۔
اسرائیل جو دراصل امریکہ ہی کی ایک صیہونی چھتری ہے اور امریکہ کے سیاسی و معاشی کاروبار میں یہ چھتری ایک جادوئی قوت کا اثررکھتی ہے اور اقوام متحدہ کی کچھ خاموش قوتوں کو جو ہر حرکت فراہم کرتی ہے۔ پھر مسلمانوں کے قتل عام کے دلآویز بین الاقوامی اجازت ناموں کی اخلاقی دستاویزات کی فراہمی کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور بالآخر مسلمانوں کو مذہب کی بنیاد پر دہشت گردی کا نشانہ بنایا جاتا ہے ان کے عقائد کا برسر عام مذاق اڑایا جاتا ہے۔ ان کے نبی اکرمؐ کی برملا اور دلسوز و دل خراش گستاخیوں کو آزادی رائے اور آزادی اظہار کا نام دیکر امت مسلمہ کے اجتماعی جذبات کو مجروح کیا جاتا ہے۔آئیے پھر بھارت کی جانب جہاں لمحہ لمحہ، نگر نگر، ڈگر ڈگر سیکولرازم کا ڈھنڈورہ پیٹا جاتا ہے۔ پھر حکومت کی خفیہ اور باسلیقہ سرپرستی میں مسجد ڈھا دی جاتی ہے اور مسلمانوں کی بستیاں جلائی جاتی ہیں۔ مسلمانوں کو عملاً تیسرے درجے کا شہری بنا کر ان کی زندگی اجیرن کرنے کا کام بھی حکومت کی اشیر آباد سے وجود میں آنے والی بال ٹھاکرے کی تنظیمیں ہی کرتی ہیں۔ یہ بھارت ہے یہ اس کا مسلم دشمن اخلاق باختہ وزیراعظم ہے مسٹر نریندر مودی جو چیختا چلاتا ہے، آنکھیں مٹکاتا ہے اور ہمیں آنکھیں دکھاتے ہوئے ہم پر پانی کی ایک ایک بوند بند کرنے کی دھمکی دیتا ہے۔ ہم پاکستانی ہیں، نظریاتی باشندے، مذہب کے پرستار اخلاق یافتہ، لیکن بہت بدقسمت کہ ہمارے سیاستدان، حکمران اپنی پہچان سے بیگانے، قومی حمیت سے دور، وطن کی جذباتی محبت سے دور ایک علیحدہ خیالستان مصلحت کے آباد کار ہیں قوم پر پانی کی قلت کی بلا وارد ہے، کھیتیاں سوکھ جاتی ہیں۔ مصفا پانی کے بغیر حلق خشک ہو جاتے ہیں۔ حکمران، سیاستدان سجن بے پرواہ کی طرح اپنے حال میں مست کیونکہ ان کی زندگی مال، مال اور ہر وقت مال کا ترانہ پڑھنے میں مصروف ہے، روزانہ جان، مال، عزت، دین وطن پر دشمن ہر طرح کے حملے کرتے ہیں۔ ہمارے رہنما ایک نکاتی دستور قوم کا راگ الاپتے ہیں…؎
خود راہبران قوم ہیں، الائشوں میں گم
ہم سے مطالبہ، قربانیوں کا ہے
ابھی وزیراعظم لاہور کی ایک دینی درسگاہ میں خطاب فرما کر واپس اسلام آباد پہنچے اور پھر انہوں نے کراچی کا ارادہ سفر کیا، منزل ان کی ہندوئوں کی دیوالی میں شرکت تھی۔ اطلاعات کی وزارت اور داخلہ کی وزارت جدید انفارمیشن ٹیکنالوجی کے سہولیات پر گستاخان دین اور گستاخان نبیؐ کو برداشت کرتی ہے۔ انہیں حق آزادی کے نام پر مسلمانوںکے جذبات کے قتل عام کی اجازت دیتی ہے۔ انہیں روکتی نہیں ہے۔ کوئی کہیں بھی زبان کھولے، حق پرستی کا مظاہرہ کرے گستاخانہ دہشت گردی پر واویلا کرے توحکومت کی پوری حمایت پیمرا احتجاج کرنے والوں کی خبر لینے کیلئے متحرک ہو جاتی ہے وزیراعظم نے لاہور سے ایک دینی ادارے میں مسلمانوں کے اعتقادی جذبات کے تحفظ کے بارے میں کچھ ارشاد نہ فرمایا لیکن جب کراچی میں اقلیتی ہندو آبادی کے تہوار میں خیر سگالی کی ہولی کھیلی، تب ان کے دل میں اقلیت کیلئے وسعت کے جذبات آمڈ آئے انہوں نے اپنی ضرورت خدمت خلق کیلئے بتائی۔ انہوں نے فرمایا کہ مذہب کے بارے میں پوچھ گچھ ایسے نہیں ہو گی جیسے کہ اہل مذہب سمجھتے ہیں۔ وزیراعظم کی وسعت قلبی اپنی جگہ لیکن پاکستان اور اہل پاکستان کے مذہبی جذبات کی وسعت اور اس کا دفاع جناب وزیراعظم کی بنیادی اور وسیع ترین ذمہ داری ہے۔ وہ ناموس رسالت پناہؐ کے سپاہی بن جائیں اور پاکستان کی اکثریتی آبادی مسلمانوں کے جذبات دینی کے اولیں پاسبان بن جائیں۔ پھر اقلیتی حقوق کیلئے وسعت قلبی کا مظاہرہ بھی کر لیں۔

ای پیپر دی نیشن