نواز شریف کو وفادار اچھے لگتے ہیں اس لئے اُنکے وفا شعار ڈھیر سا انعام و اکرام پاتے ہیں۔ نواز شریف سے وفاداری نہ کرنیوالوں کے نام بھی ڈھیر سے ہیں۔ ان میں تین اہم بے وفا ایسے ہیں جن کی ناراضگی نواز شریف سے تھی لیکن اُنکے ردعمل سے پاکستان کو نقصان پہنچا۔ اس لسٹ میں پہلی شخصیت ہمارے جانے پہچانے عمران خان ہیں جن کی ابتدائی عملی زندگی نواز شریف سے بہت دور نہیں تھی لیکن رفتہ رفتہ وہ نواز شریف کی بے عزتی کا سامان ہوتے گئے۔ پاکستان کے سیاسی کلچر میں غنڈہ گروپ یا گینگسٹر ہمیشہ سے موجود رہے ہیں مگر پی ٹی آئی میں یہ خفیہ گروہ کی صورت میں نہیں بلکہ یہ فن پی ٹی آئی کے ہرورکر کے پاس ہے۔ عمران خان نے دھاندلی اور کرپشن کی لاقانونیت کے حوالے سے سڑکوں پر جومہم چلائی اُس کی جگہ دھاندلی اور کرپشن کو روکنے کا پارلیمنٹ سے قانون بنوا لیتے تو پاکستان انہیں بہت یاد کرتا۔ عمران خان کی امیچور اور یوٹرن پالیسیوں نے سنجیدہ سیاست کو بہت نقصان پہنچایا جس کے باعث دو بڑی سیاسی جماعتوں سے مایوسی کا خلاء پُرکرنیوالی جماعت پی ٹی آئی سے بھی لوگ مایوس ہوگئے۔ مایوسی کا یہ خلاء برقرار رہنے سے نواز شریف کو سیاسی نقصان ہوتا۔ عمران خان کی نواز شریف سے ناراضگی پاکستان کے سیاسی کلچرکو نقصان پہنچا گئی۔ نواز شریف کا مخالف بن کر پاکستان کو شدید مسائل سے دوچار کرنے والی دوسری اہم شخصیت جنرل پرویز مشرف ہیں۔ جنرل پرویز مشرف نے اپنے ’’ہاف کوکڈ پلاننگ‘‘ والے مزاج کے ساتھ تخت پر قبضہ کیا تو اُنکے ایکشنز میں دیر تک کنفیوژن موجود رہی۔ یہاں تک کہ پاکستان میں اُس وقت کے امریکی سفیر بھی تختہ الٹنے والے جنرل پرویز مشرف سے دو دن تک نہ مل سکے جبکہ اس سے قبل پہلی تینوں فوجی بغاوتوں کے بعد ایسے رابطوں میں اتنی دیر نہیں ہوتی تھی۔ ایک بے ضرر اور کمزور ترین بکری بھی قصائی کی چھری سے بچنے کیلئے اپنی ہمت کیمطابق کوشش کرتی ہے لیکن پرویز مشرف نے ایک امریکی فون کے آگے اتنی کوشش بھی نہ کی اور سارے پاکستان کو بے بس لِٹا دیا۔ مبینہ طور پر انہوں نے غیرملکی فوجوں کو پاکستان کی سرزمین استعمال کرنے دی، پاکستانی پکڑپکڑ کر غیرملکیوں کے حوالے کئے، امریکی خفیہ ادارے کے بیشمار ایجنٹوں کوبھی پاکستان میں داخل کروایا اور پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار امریکیوں کو اوپن چیک دیا گیا کہ وہ کسی بھی اجازت کے بغیر پاکستان کی حدود کے اندر ڈرون حملے کرسکتے ہیں۔ ڈرون حملوں کی اجازت کا یہ اوپن چیک دے کر جنرل پرویز مشرف نے کتنے چیک حاصل کئے، ممکن ہے یہ معلومات آئندہ کسی وکی لیکس میں لیک ہو جائیں۔ وہ جن بیرونی تحائف کے بل بوتے پر بیرونِ ملک لگژری کررے ہیں ہوسکتا ہے اِن ’’امدادی چیکس‘‘ کو کسی تیسری جگہ سے اِن ڈائریکٹ کروا کے لیکچرز کی کمائی یا کوئی دوسرا شوگر کوٹڈ نام دے دیا گیا ہو۔ اگر جنرل پرویز مشرف نواز شریف سے ناراض نہ ہوتے تو وہ اقتدار میں بھی نہ آتے اور اگر اقتدار میں نہ آتے تو مندرجہ بالا واقعات سمیت پاکستان اکبر بگٹی اور بینظیر بھٹو کے المناک حادثوں سے بھی شاید بچا رہتا۔ گویا یہاں بھی نواز شریف سے ناراض ہونے والی شخصیت نے نواز شریف سے زیادہ پاکستان کو دائو پر لگایا۔ تیسری اہم شخصیت حسین حقانی ہیں۔ ان کا ماضی اور حال سٹیلتھ ٹیکنالوجی جیسا ہے یعنی اپنی سیاسی زندگی کی فلائٹ کے دوران حسین حقانی اپنے رہنمائوں کے ریڈار کی نظروں کو دھوکہ دیکر آگے سے آگے نکلتے گئے۔ وہ جماعت اسلامی کی گود میں جنم لیکر نواز شریف، بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سے ہوتے ہوئے امریکہ تک جاپہنچے۔ نواز شریف وہ شخصیت ہیں جن کے سہارے حسین حقانی عملی سیاست میں داخل ہوئے اور 1988ء میں اُنکے سیاسی ایڈوائزر مقرر ہوئے لیکن جلد ہی وہ نواز شریف کے سامنے سمارٹ بننے لگے۔ نواز شریف کو باسنگ پسند نہیں۔ اسی لئے نواز شریف نے انہیں کولڈ شولڈر دینا شروع کردیا۔ حسین حقانی اُس وقت کی مستقبل کی حکومت میں جگہ بنانے کیلئے نواز شریف سے ناراضگی کرکے بینظیر بھٹو سے جاملے اور زرداری حکومت میں بھی پیپلز پارٹی کے کالر کا پھول رہے۔ پیپلز پارٹی کی حسین حقانی سے لاتعلقی 2011ء میں اُس وقت ہوئی جب میموگیٹ سکینڈل آیا اور سٹیبلشمنٹ کا موڈ آف ہوا۔ اہم تعلقات کے حرصی حسین حقانی نے امریکہ میں قیام کے دوران پاکستانی معاملات سے تجاوز کرکے بش اور اوبامہ کے ساتھیوں سے تعلقات بڑھائے اور اب وہ اپنی سٹیلتھ صلاحیت کی بنیاد پر ٹرمپ انتظامیہ کی بیلٹ میں گھسنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اُنکی تین کتابوں میں پہلی کتاب "Pakistan: Between Mosque and Military" ہے۔ اس میں انہوں نے پاکستان کی مسلح افواج اور اسلامی جہادیوں کے تعلقات کی بات کی ہے جس کے ذریعے پاکستان کی شناخت اور سیکورٹی کے عمل کو تلاش کیا جانا تھا۔ اُن کی دوسری کتاب "Magnificent Delusions: Pakistan, the United States, and an Epic History of Misunderstanding" ہے جس میں امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کی ہسٹری کو مخصوص نکتہ نظر سے بیان کیا گیا ہے۔ تیسری کتاب کا نام "India vs Pakistan" ہے جس میں حسین حقانی نے ہندوستان اور پاکستان کے تعلقات کی مختصر تاریخ کو اپنے انداز میں پیش کیا ہے۔ حسین حقانی نے اپنی کتابوں میں جو کچھ لکھا اُسکے صحیح یا غلط ہونے کی بات علیحدہ ہے لیکن یہ واضح ہے کہ انہوں نے پاکستان کے موجودہ ریاستی بیانیہ سے مختلف لکھا ہے جسے موجودہ ریاستی بیانیہ کی موجودگی میں ملک دشمن تحریریں ہی تصور کیا جائے گا۔ اُنکے حالیہ مضمون میں امریکی سی آئی اے کے اہلکاروں کو پاکستان میں تعینات کروانے کی سہولت فراہم کرنا ایک انکشاف نہیں بلکہ ملک کے اندر اور باہر پاکستان کیخلاف نئے سرے سے مشکل بحث شروع کروانے کی دانستہ کوشش ہے۔ حسین حقانی کی 1988ء سے اب تک کی سیاسی زندگی پر نظر ڈالیں تو اُنکی کھلم کھلا ناراضگی صرف نواز شریف سے تھی لیکن اس کا بدلہ انہوں نے پاکستان اور اسکے اداروں سے لیا۔ جب جنرل ضیاء الحق نے یہ کہا کہ وہ سیاست دان نہیں ایک سپاہی ہیں تو بی بی سی نے تبصرہ کیا کہ ’’اگر جنرل ضیاء الحق سیاست دان نہ ہوتے تو آج کچھ بھی نہ ہوتے‘‘۔ بالکل یہی سچائی حسین حقانی پر بھی فِٹ آتی ہے کہ اگر وہ ریاستِ پاکستان کے مخالف نہ ہوتے تو آج کچھ بھی نہ ہوتے۔