سیاست میں ہر چیز ممکن ہے کچھ بھی ناممکن نہیں ہے ہمارے یہاں تو سیاست کی بنیاد ہی اِس ممکن اور نا ممکن پر قا ئم ہے سینیٹ الیکشن میں اپوزیشن جماعتوں کی توقعات کے عین مطابق حیران کُن کامیابی اورجبکہ حکمران جماعت کو اُمید کے برخلاف منہ کھاتی شکست کا سامنا کرناپڑاہے یوں ایک بار پھر یہی خیال کیا جارہاہے کہ نوازشریف کی نااہلی اور سینیٹ کے الیکشن میں ن لیگ کی نا کامی کے بعد نوازشریف کا سیاسی باب کچھ نہیں تو تھوڑے عرصے کے لئے ضرور بند ہوگیاہے مگر پھر بھی ہماری مُلکی سیاست میں کچھ بھی حتمی نہیں ہوتاہے کبھی نہ کبھی جلد یا دیر نوازشریف کے حوالے سے کچھ نیا اور انوکھاہوسکتا ہے۔
جس کی ایک سادہ اور قریبی مثال عمران اور زرداری کا سینیٹ الیکشن میں اتحادی بننا ہما رے سا منے ہے جبکہ کچھ دِنوںپہلے تک اِن دونوں کی کثرت سے عوامی اجتماعات اور دیگر مقامات پر کی جا نے والی سیاسی زبان درازی بھی ہے جِسے ٹی وی چینلز پر سُن کر اور اِن کے ایک دوسرے کے خلاف دیئے جا نے والے بیانات اخبارات میں پڑھ کر ایسا لگتا تھا کہ دونوں نے ایک دوسرے کے لئے جیسی زبانیں استعمال کی ہیں اور کرتے رہتے ہیںاَب چاہئے کچھ بھی ہو جائے سورج مشرق کے بجا ئے مغرب نکلے اور آسمان زمین پر بھی آن پڑے توبھی یہ کبھی کسی نقطے پر ایک نہیں ہوں گے چونکہ سیاست میں ہر لمحہ ایک نیا موڑ لئے ہو ئے آتا ہے سینٹ کے چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین کے انتخاب میں نہ صرف سرزمینِ پاکستان کے باسیوں نے دیکھا بلکہ دنیا نے بھی جان لیا اور سمجھ لیا کہ سیاست مگر بالخصوص پاکستا نی سیاست میں کبھی بھی اور کہیں بھی کچھ بھی اَنہو نی ہوسکتی ہے ۔جبھی تو چیئر مین سینیٹ اور ڈپٹی چیئرمین کے انتخاب میں زرداری ، عمران کا اتحادکا میا ب ہوگیاجس کے بعدجہاں تاریخ میں پہلی بار ایوان بالا کی سربراہی بلوچستان کو مل گئی تو وہیں بلوچستان کے عوا م کی احساس محرومی بھی بڑی حد تک کم اور ختم ہو ا ہے۔ اِدھر سینیٹ الیکشن کا تاریخ ساز نتیجہ آیا تو اُدھر ن لیگ ا ور اِس کے اتحادیوں کے چہرے اُترے تووہیں اُن کی زبا نیں بھی کا ن کترنے والی قینچی اور زہریلے نشتر سے زیادہ تیز چلنے لگی، سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے حاصل بزنجو نے کلیجہ چھیلتے جملوں اور اپنے سخت ترین لب ولہجے اور رندھی ہوئی آواز میں کہا کہ ’’ آج ثابت ہوا بالادست قوتیں پارلیمنٹ سے زیادہ طاقتور ہیں،ایوان کو منڈی بنا دیا،ہاؤس کا منہ کالا کردیا،یہاں بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے ‘‘اِسی طرح محمود اچکزئی نے بھی مرچیں چبا نے والے انداز سے کہا کہ’’ صادق سنجرانی قبول نہیں، شہباز شریف نے کہا کہ’’ زرداری اور نیازی ایک ہو بھی جا ئیںتو ہم سے بھا ری نہیں ہوسکتے ہیں‘‘ مریم نواز نے صادق سنجرا نی اور سلیم ما نڈوی والا کی کامیا بیوں پر ٹوئٹ پیغا م میں ا نتہائی جلے کٹے لہجے اظہار خیال کیا کہ’’ شطرنج کے مہرو! تم جیتے نہیں بدترین شکست ہو ئی مریم اورنگزیب، سعدرفیق اور طلال چوہدری نے بھی اپنے اپنے روایتی لب ولہجے سے عمران زرداری کے اتحاد کی جیت پر کھل کر زہر اگلا اور اپنے دل کی بھڑاس نکالی ۔آج زرداری و عمران اتحاد کی سینیٹ انتخاب میں کامیا بی پر الزام تراشیاں کرنے والے ن لیگ والے اپنا محاسبہ اور احتساب کریں اَب قبل اِس کے کہ اگلے عام انتخابات میں عوام اِن کا محاسبہ کرے ابھی موقع ہے کہ نواز شریف اور اِن کے حواری اداروں اور بالخصوص عدلیہ اور فوج و اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر سوالیہ نشان لگا نے سے پہلے ما ضی میںبھی جھانکیں کہ اِن کی نرسری بھی تو فوج و اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کے ہاتھوں پروان چڑھی ہے آج جویہ اتنے بڑے قدآوار درخت بن کر اپنے ہی محسنوں(اداروں) کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں سوچیں کہ آج یہ کس منہ سے یہ اداروں کو بُرا بھلا کہہ رہے ہیں؟ یہ کہنا اور سوچنا کسی حد تک درست ثابت ہوسکتا ہے کہ سینیٹ انتخاب میں زرداری اور عمران کسی کے کہنے یا اشارے پرایک دوسرے کے قریب آئے ہوں مگر یہ بھی تو ما ننا ہی پڑے گا کہ سینیٹ الیکشن میں دونوں نشستوں سے ن لیگ کو پوری قوت سے ہرا نے کا عزم و اعلان کرنے والے پی ٹی آئی کے چیئر مین عمران خان نے اپنے کئے کو عملی جا مہ پہنا نے کے لئے پی پی پی سے گٹھ جوڑکیا اور پھر زرداری عمران سا نجھے کی ہنڈیا صادق سنجرا نی اورسلیم مانڈوی والا کی آمیزش یا تڑکے سے تیار ہو گئی ہے اَب جس پر ن لیگ اور اِس کے اتحادیوں کی بددعائیں نما تنقیدجاری ہے یہ کہہ رہے ہیں کہ دیکھتے ہیں کہ زرداری عمران سا نجھے کی ہنڈیا سنجرا نی چوراہے پر کب پھوٹتی ہے؟ ابھی ن لیگ کے سینٹ الیکشن کے بعدسینے میں لگی شکست کی آگ ٹھنڈی نہیں ہو ئی ہے شائداَب یہ آگ اگلے پانچوں سالوں میںبھی ٹھنڈی نہ ہو مگر اتنا ہے کہ سینیٹ میں اتحادی جماعتوں پی پی پی اور پی ٹی آئی والوںکو آئندہ ن لیگ کی طرف سے اکثر معاملات پر با ئی کا ٹ اور واک آوٹ کرنے سے بہت معاملات میں ٹف ٹائم ملے گادیکھتے ہیں کہ اَب زرداری اور عمران اِس امتحان میں کتنے کا میاب ہوتے ہیں؟ اور اپنا اتحاد کب تک برقرار رکھ کر سینیٹ کے چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین کو اِن کے عہدوں پر باہم متحد و منظم رہ کر قا ئم رکھ سکیں گے؟اور آ پس کے اختلافات اور سیاسی معاملات کو اپنی سیاسی بصارت و بصیرت ، آگاہی، مصالحت پسندی اور افہام و تفہیم سے کا م لیتے ہوئے عفووودرگزر سے نبھائیں گے؟۔ کیو نکہ مزاج اور سیاسی تدبر اور فہم وفراست میںزرداری اور عمران کی سوچوں اور فیصلوں میں زمین آسمان کا فرق ہے مگر پھر بھی دُعا ہے کہ دونوں ایک دوسرے کو برداشت کریں اور آگے بڑھیں۔