جہاں دشمن کی نائٹ پٹرولنگ کا شبہ تھا ۔ فائر اس قدر شدید اور اچانک تھا کہ دشمن کے کئی علاقوں میں سوکھی گاس میں آگ بھڑک اٹھی۔ا جلاس کینٹ میں دشمن کی بیرکوں پر حملے سے تقریباً تمام ٹین کی چھتوں میں سراغ ہو گئے۔ اس قدر شدید فائرنگ کی آواز سن کر بٹالین ہیڈ کوآرٹر میں بیٹھے تمام آفیسران اور جوان پریشان ہو گئے۔ فیلڈ ٹیلی فون پر جب پوچھا گیا تو ہمارے جاسوس ٹیلی فون آپریٹروں نے اطلاع دی کہ دشمن کی طرف سے فائر کھولا گیا ہے اور لگتا ہے کہ کسی پوسٹ پر حملہ ہونے والا ہے۔ دشمن کی طرف سے پوسٹ پر حملے کی خبر نے بٹالین ہیڈ کواٹر سے لے کر ڈویژن ہیڈ کوا ٹر تک آگ لگا دی ۔ نہلے پہ دھلہ یہ ہو اکہ ہمارے دونوں بازئوں والی یونٹوں نے بھی اسی طرح کے خدشے کا اظہار کر دیا ۔ لہذا ہمیں حکم ملا کہ دشمن کے فائری یاکسی قسم کے حملے کی صورت میں بھرپور جواب دیا جائے اور دشمن کو کسی قسم کی مہم جوئی سے روکاجائے۔’’ اندھے کو کیا چاہیے ؟دو آنکھیں‘‘۔یہ حکم ہمارے لیے کافی تھا۔ ہم نے اس قدر دِل کی بھڑاس نکالی کہ اگلے روز دشمن کی پوسٹوں سے سفید جھنڈے لہرا دیئے گئے اور لائوڈ اسپیکروں پر اعلان کرنے لگے کہ’’ ساتھی ہمیں معلوم ہے کہ پٹھانوں کی نئی یونٹ 46ایف ایف آگئی ہے۔ آپ لوگوں نے ہمارا بہت نقصان کردیا ہے لہذا ابھی نہ ہم فائر کرینگے اور نہ ہی آپ کریں‘‘۔ شہری آبادی نے ہمیں مبارک باد دی اور کہا کہ اب پتا چلا ہے کہ کوئی نئی یونٹ آئی ہے۔ اس واقعہ کے بعد کافی عرصہ سکون رہا مگر دشمن نے خود ہی فائر بندی توڑ دی ۔ ایک شام میری کمپنی کی ایک پلاٹون پر شدید فائری حملہ کردیا ۔ موٹر گولے جگہ جگہ گرنا شروع ہو گئے۔ اس وقت میں ایک پوسٹ سے دوسری پوسٹ کی جانب جارہا تھا۔ دشمن کی پوسٹیں اوپر اور ہم نیچے تھے لہذا ہماری پوسٹوں کو باآسانی نشانہ بنایا جا سکتا تھا۔ دشمن نے ایک ہی پوسٹ کو ٹارگٹ کیا جو بظاہر اکیلی اور دشمن کی پوسٹ سے صرف 10گز فاصلے پر تھی۔ میں متاثرہ پوسٹ تک پہنچنے کی کوشش میں تھا لیکن راستے میں ایک بزرگ جس کا نام چوہدری منگا خان تھا، نے مجھے پکڑ کر اپنے گھر میں چھپا لیا اور باہر نکلنے سے منع کردیا۔ ابھی کچھ ہی لمحات گزرے تھے کہ وائرلس پرپوسٹ کمانڈر نائیک الطاف جو بظاہر بڑا دلیر عہدیدارتھا مگر آج اس قدر شدید فائرنگ اور بمباری سے گھبرا گیا اور وائرلیس پر مجھے گھبراہٹ میں پکارتے ہوئے کہنے لگا کہ’’ سرپوسٹ پر حملہ ہو گیا ہے آپ کدھر ہیں؟ ‘‘میں نے جواب میں اسے تسلی دیتے ہوئے کہا کہ’’ فکر نہ کرو میں تمارے کان کے پاس ہوں اور ابھی پہنچتا ہوں ‘‘۔چوہدری منگا خان جو مسلسل مجھے باہر نکلنے سے روک رہے تھے ،سے اجازت چاہی اور کہا کہ اب میر ا پوسٹ تک پہنچنالازمی ہو گیا ہے کیونکہ میرے جوان گھبرا گئے ہیں ۔ لہذا جو اللہ کو منظور ہو گا وہی ہو گا۔ چونکہ یہ علاقہ میرے لیے نیا تھا لہذا چوہدری منگا خان نے اپنا جوان سال بیٹا چوہدری شاپال میرے ساتھ بھیجا ۔ یہ وہی مقام ہے جہاں آجکل تیتر ی نوٹ کراسنگ پوائنٹ واقع ہے۔ میں اور شاپال گولیوں کی بوچھاڑ میں گھر سے نکل کر پوسٹ کی جانب دوڑ پڑے۔ میں نے محسوس کیا کہ چوہدری شاپال مجھ سے زیادہ تربیت یافتہ ہے ۔ وہ کبھی کسی درخت ،کبھی دیوار ، اور کبھی کسی بنے کی آڑ لے کر دوڑتا تھا مگر میں سیدھا ہی بھاگا چلا جارہا تھا۔ دشمن کی گولیاں بالوں ، کانوں اور جسم کے مختلف حصوّں کو چُھو کر گزرتی محسوس ہوتی مگر شائد کسی گولی پر میرا نام درج نہ تھا۔ پوسٹ کے قریب پہنچ کر میں نے شاپال کو واپس جانے کو کہا کیونکہ مزید آگے خطرات نمایاں تھے۔(جاری )