قائداعظم محمد علی جناحؒ مسلمانانِ ہند کے مسیحا تھے۔ یہ اُن کا اعجازِ مسیحائی تھا کہ ہر مسلمان صدقِ دل سے یہ سمجھتا تھا کہ وہ اسی کی حدیثِ دل بیان کر رہے ہیں۔ تحریکِ پاکستان کا گہرائی سے مطالعہ کیاجائے تو یہ امر عیاں ہوتا ہے کہ تعلیم یافتہ اور اَن پڑھ‘ شہری اور دیہاتی، بوڑھے اور جوان‘ ہر مکتبہ فکر اور ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے مسلمان مرد و خواتین ان کے گرویدہ تھے۔ دراصل جب اللہ تعالیٰ کسی شخصیت سے کوئی بڑا کام لینا چاہتا ہے تو اس کی قوم کے دل و دماغ میں اس کے لئے بے لوث محبت پیدا کردیتا ہے۔ بابائے قوم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی معاملہ تھا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انہیں مسلمانوں کے محب کا درجہ عطا فرمادیا تھا۔ اسی لئے تو انگریزی زبان سے ناواقف مسلمان بھی ان کی تقاریر پر اس یقین کے ساتھ ہمہ تن گوش ہوتے تھے کہ وہ جو کچھ فرمارہے ہیں‘ بالکل سچ ہے اور اس میں مسلمانوں کی بھلائی ہے۔ یہ مرتبہ¿ محبوبیت مسلمانانِ ہند کی تاریخ میں نہ تو پہلے کسی سیاسی رہنما کو حاصل ہوا اور نہ ہی بعد میں کسی کو میسر آسکا۔ بڑے تو بڑے‘ بچے بھی ان کی محبت میں مبتلا ہوگئے تھے اور بلا جھجھک ان سے خط و کتابت کرتے تھے۔ بچے دل کے سچے ہوتے ہیں‘ اسی لئے ان کی باتیں بھی کسی قسم کے تصنع سے پاک ہوتی تھیں۔ تحریکِ پاکستان اور بابائے قوم کے بارے میں جو باتیں ان کے دماغ میں گردش کرتی تھیں‘ بلا کم وکاست نوکِ قلم پر لے آتے تھے۔ جدوجہد آزادی کے دوران مسلمان بچوں نے انہیں اپنے من میں بسا لیا اور دل کا حال ان کے گوش گزار کرتے رہے۔ ان خطوط کے مطالعہ سے واضح ہو جاتا ہے کہ پاکستان کا قیام منشائے ایزدی تھا کیونکہ جس قوم کے معصوم بچوں کے قلوب میں آزادی کی تڑپ پیدا ہوجائے اور وہ اپنے نجات دہندہ کے عشق میں گرفتار ہوجائیں‘ اسے کوئی طاقت تادیر غلام نہیں بنائے رکھ سکتی۔ تاریخ کے اوراق میں گم یہ خطوط اب کتابی صورت میں منظر عام پر آچکے ہیں۔ قصہ یہ ہے کہ ممتاز محقق‘ سول سرونٹ اور نیشنل کونسل آف سوشل ویلفیئر کے چیئرمین ڈاکٹر ندیم شفیق ملک قائداعظمؒ یونیورسٹی‘ اسلام آباد کی لائبریری میں ڈاکٹریٹ کے مقالے کی تیاری کے سلسلے میں ”قائداعظمؒ پیپرز“ کی ورق گردانی میں مصروف تھے کہ ان کی نظر سے گاہے بگاہے یہ خطوط بھی گزرتے رہے۔ تاریخ کے ایک طالبعلم کی حیثیت سے وہ انہیں نظرانداز نہ کرسکے۔ ان کا دورانیہ¿ تحریر 1939ءتا 1948ءتھا۔ انہوں نے عرق ریزی سے انہیں اکٹھا کرلیا اور پھر....پندرہ برس بیت گئے۔ سرکاری مصروفیات اور دیگر تصنیفات پر کام آڑے آتا رہا۔ بالآخر چند سال قبل انہوں نے ان خطوط کی طرف توجہ مبذول کی اور ضروری ترتیب و تدوین کے بعد 2014ءمیں ایک سرکاری ادارے نے انہیں شائع کردیا۔ اسی دوران نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ سے ان کی راہ و رسم پیدا ہوئی۔ مقاصد میں ہم آہنگی کے طفیل باہمی محبت اتنی پروان چڑھی کہ انہوں نے اس خواہش کا برملا اظہار کیا کہ ان خطوط کو یہ ادارہ ازسر نو شائع کرے۔ اس قومی نظریاتی ادارے کے اغراض و مقاصد میں تو پہلے ہی تحریکِ پاکستان سے متعلقہ دستاویزات کو محفوظ اور شائع کرنا شامل ہے۔ چنانچہ ادارے کے چیئرمین جناب محمد رفیق تارڑ کی ہدایت پر اسے شائع کرنے کا پروگرام طے پایا۔ اللہ کریم کے فضل و کرم سے چند روز پہلے یہ منصہ شہود پر آچکی ہے جسے بلانفع نہایت معمولی قیمت پر ایوانِ کارکنان تحریکِ پاکستان‘ 100-شاہراہِ قائداعظمؒ، لاہور سے خریدا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ندیم شفیق ملک نے مزید اچھا کام یہ کیا ہے کہ ان خطوط کے اصل عکس کے بالمقابل انہیں کمپوز شدہ حالت میں بھی پیش کردیا ہے جس کی بدولت اگر کہیں عبارت ناقابلِ فہم ہے تو اس کا سدباب ہوگیاہے۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ کی ایک انتہائی نادر تصویر کو سرورق کی زینت بنایا گیا ہے جس میں وہ بچوں کے جھرمٹ میں تشریف فرما ہیں۔ ان خطوط کا مطالعہ نہ صرف بڑی عمر کے افراد بلکہ نسلِ نو میں بھی ان جذبوں اور ولولوں کے احیاءکا باعث ثابت ہوگا جو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست کے قیام کی بنیاد بنے۔ انہیں پڑھ کر دل سے دعا نکلتی ہے کہ یہ جذبے کبھی ماند نہ پڑیں کہ جتنے یہ پاکستان کے قیام کے لیے ضروری تھے‘ اتنے ہی اس کی بقاءکے لیے بھی ناگزیر ہیں۔ قارئین کے ذوقِ نظر کے لیے چند خطوط کے مندرجات پیشِ خدمت ہیں۔ حیدرآباد دکن سے تعلق رکھنے والی سکول کی ایک طالبہ شمیم 30مارچ 1942ءکو قائداعظم محمد علی جناحؒ سے کچھ یوں مخاطب ہوئی ہے: ”محترم قائداعظمؒ! السلام علیکم.... میں نے اپنے جیب خرچ کو Sweets (سویٹس) کے لئے نہیں خرچ کیا تھا۔ لہٰذا وہ پانچ روپیہ میں قومی دفاعی فنڈ کے لیے بھیج رہی ہوں۔ میں ایک School Girl ہوں، اس سے زیادہ نہیں بھیج سکتی۔ امید ہے کہ ایک لڑکی کے جیب خرچ کی یہ حقیر سی رقم آپ فنڈ میں شامل کرلیں گے۔“ اسی طرح 22 اپریل1942ءکو بانکی پور‘ پٹنہ سے تعلق رکھنے والا ایک طالبعلم محمد محفوظ عالم رقمطراز ہے: ”Most revered Quaid-i-Azam! Please accept my humble contribution to the Muslim National Fund. I am a school student of extremely scanty means. But I shall not allow my limited means to come between my duty that I owe to the Muslims and obedience due to you. I have decided to go without breakfast for seven days every month and send the amount thus saved to you. Kindly pray God to give me the strength to stand the trial. Quaid-i-Azam! I seek your blessings.''
یتیم خانہ اسلامیہ کڑپہ‘ مدراس میں رہائش پذیر مسلمان بچے 25 جولائی 1942ءکو اپنے جذبات کا کچھ اس طرح اظہار کرتے ہیں: ”بعالی خدمت حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ صدر مسلم لیگ کُل ہند بمبئی‘ ہمارے اچھے قائداعظمؒ! السلام علیکم و رحمت اللہ و برکاتہ.... ہم یتیموں کی دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کو تادیر سلامت رکھے۔ قائداعظمؒ آپ نے ہندوستان کے مسلمانوں سے مسلم لیگ کے لیے چندے کی درخواست کی ہے یہ ہم کو اخباروں کے ذریعے معلوم ہوا۔ ہمارا بھی خیال ہوا کہ ہم بھی آپ کی خدمت میں کچھ چندہ پیش کریں اور آپ کو یہ معلوم ہے کہ ہم یتیم ہیں اور ہمارے کھانے پینے اور کپڑے وغیرہ کا انتظام یتیم خانے سے ہوتا ہے۔ ہمارے ماں باپ نہیں ہیں جو ہم کو روز پیسے دیں۔ پھر بھی ہم نے یہ طے کرلیا کہ آپ کی خدمت میں ضرور کچھ بھیجیں گے۔ اس لئے ہم نے ہم کو دھیلہ پیسہ جو کچھ بھی جہاں کہیں سے ملا‘ اُس کو جوڑنا شروع کردیا یہاں تک کہ تین روپیہ دو آنے 3-2-0کی رقم جمع ہوئی۔ اب اس کو آپ کے خدمت میں روانہ کر رہے ہیں۔ آپ اس کو قبول کیجئے۔ ضرور قبول کیجئے۔ ہم آپ سے اقرار کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہم کو زندہ رکھا اور ہم خوب پڑھ کر جوان ہوئے تو مسلم لیگ کی بڑے جوش و خروش سے خدمت کریں گے اور جب ہم کمانے لگیں گے تو آپ کی درخواست پر بہت سے روپے چندے میں دیں گے۔ آپ ہمارے لیے دعا کیجئے۔“ چشتیہ ہائی سکول‘ امرتسر میں پانچویں جماعت کا طالبعلم عزیزالرحمن 29 اپریل 1942ءکو اپنے معصوم جذبات کا اظہار کرتے ہوئے لکھتا ہے: ”جناب باباجی صاحب۔ حضور جناحؒ صاحب! بعدآداب غلامانہ کے عرض ہے کہ پھوپھا جان بیس دن ہوئے‘ دوستوں سے کہتے تھے کہ حضور جناحؒ صاحب نے مسلمانوں کے کام (کے) واسطے ہر ایک مسلمان سے چندہ مانگا ہے۔ آگے نہیں مانگا تھا۔ باباجی صاحب مجھ کو غلام کو جو پیسہ ملتا ہے‘ میں نے اکٹھا کرلیا ہے۔ آپ کوئی فکر نہ کریں۔ آٹھ آنے جمع ہوگئے ہیں۔ ٹکٹ لے کر اس لفافے میں بند کرکے بھیجے ہیں۔ خدا کرے آپ کو مل جائیں۔ آپ بالکل فکر نہ کریں۔ میں اور بھی پیسے جمع کروں گا۔ اگر یہ آٹھ آنے آپ کو مل گئے اور بھی بھیجوں گا۔ آپ کوئی فکر نہ کریں اور جب بڑا ہوں گا اور بھی بہت زیادہ روپے بھیجوں گا۔ خدا آپ کا سایہ ہمارے سروں پر قائم رکھے۔ آداب“ علاوہ ازیں 11 اپریل 1946ءکو گوپی پور‘ کانگڑہ سے تعلق رکھنے والے ساتویں جماعت کے طالب علم اورنگزیب خان کا طویل خط اور قائداعظمؒ کے وصال پر مادرِملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کے نام کراچی کے طالب علم سلطان جمیل کے خط سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمان بچے تحریکِ پاکستان کے بارے میں کتنا غور و فکر کرتے تھے۔ تحریکِ پاکستان میں بچوں کے کردار کو اُجاگر کرتی یہ اہم دستاویز ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان اور ایوانِ قائداعظمؒ سے دستیاب ہے۔
٭٭٭٭٭
قائداعظمؒ سے بچوں کی عقیدت
Mar 17, 2018