یہ درست ہے کہ ملک میں عوام کو علاج معالجے، کھانے، پینے کی اشیاء میں ملاوٹ اور صاف پانی کے حصول میں خاصی دشواریاں ہیں اور اس سلسلے میں حکومت کو سنجیدگی سے مثبت اقدامات کرنا چاہئیں لیکن ان سب مسائل سے آگے جو سب سے تکلیف دہ اور دلخراش مسئلہ ہے وہ غریب عوام کو سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کا ہے۔ آج اگر پاکستانی عدالتوں میں جا کر دیکھیں تو سائلین کی کثیر تعداد، جن میں غریب لوگوں کی کثرت ہے۔ انصاف کے حصول کیلئے مارے مارے پھر رہے ہیں۔
ایک سروے کے مطابق صرف لاہور ہائی کورٹ میں تقریباً، ڈیڑھ لاکھ مقدمات زیر التواء ہیں اور ماتحت یعنی ضلعی عدالتوں میں زیر التواء مقدمات کی تعداد گیارہ لاکھ سے متجاوز ہے۔ اسی طرح سندھ ہائی کورٹ اور اس کی ماتحت عدالتوں، پشاور اور کوئٹہ ہائی کورٹس اور ان کی ماتحت عدالتوں میں بھی صورتحال اس سے مختلف نہیں جس غریب کے پاس عدالتوں کے کارندوں کو دینے کے لئے رشوت کے پیسے نہیں، ان کے مقدمات مہینوں نہیں بلکہ سالوں لٹکتے رہتے ہیں اور فیصلہ پھر بھی نہیں ہونے پاتا۔ کچھ لوگ تو مقدمات لڑتے لڑتے اور پیشیاں بھگتتے بھگتتے بوڑھے ہو جاتے ہیں اور کچھ دنیا سے فانی سے کوچ ہی کر جاتے ہیں۔
چیف جسٹس آج کل لوگوں کو علاج معالجے کی سہولت دلانے اور صاف پانی کی فراہمی کے لئے مختلف ہسپتالوں، جنرل سٹورز اور گندے نالوں وغیرہ کے دورے کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ کام انتظامیہ کا ہے اور چیف جسٹس کے لئے اتنا کافی ہے کہ وہ از خود نوٹس کے تحت وزیر، وزیر صحت، سیکرٹری صحت اور فوڈ اتھارٹی کے افسران وغیرہ کو نوٹس بھجوا دیں اور ان مسائل پر کوئی حتمی فیصلہ صادر فرما دیں کیونکہ جس کرسی پر وہ بیٹھے ہیں اس کے تقاضے (اگرچہ ہم سے زیادہ ان کو معلوم ہے) کچھ اور ہیں یعنی عوام کو فوری انصاف مہیا کرنا۔ چیف جسٹس عدالتی نظام کو اگربہتر کرنے کی کوشش کریں، اپنی ماتحت عدالتوں کے دورے کریں اوردیکھیں کہ غریب لوگ انصاف کیلئے کس طرح تڑپ رہے ہیں اور ترس رہے ہیں تو انہیں تمام ہسپتال اور جنرل سٹور بھول جائیں گے۔ ہمارا عدالتی نظام اس قدر فرسودہ اور سست روی کا شکارہے کہ سائل کو مرنے کے بعد بھی انصاف نہیںملتا اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جس بستی سے عدل انصاف اٹھ جاتا ہے وہاں انصاف کرنے کا ذمہ پھر اللہ تعالیٰ اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے اور اللہ کا انصاف بہت کڑا اور بہت درست ہوتا ہے میاں محمد بخش نے کہا۔
عدل کریں تے تھر تھر کمبن اچیاں شاناں والے
فضل کریں تے بخشے جاون میں ورگے منہ کالے
پاکستان کی تاریخ میں شائد پہلی بار سینٹ کے چیئرمین کے انتخاب کے لئے ہارس ٹریڈنگ کا سہارا لیا گیا ہے اس سے ایوان بالا کا وقار مجروح ہوا ہے اور سینٹ کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے کہ کیا یہ لوگ جو ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے منتخب ہوئے ہیں یہ کرپٹ لوگ عوام کی قسمت کا فیصلہ کریں گے؟
کیونکہ ہارس ٹریڈنگ سیاسی کرپشن ہے جس میں ضمیر بیچے اور خریدے جاتے ہیں۔ ممکن ہے پی پی کو کہیں سے ڈکیشن ملی ہو اور نہ کل تک پی پی اور پی ٹی آئی جو ایک دوسرے پرالزامات اور گالیوں کی بوچھاڑکر رہے تھے۔ چیئرمین سینٹ الیکشن میں اکٹھے ہوگئے۔ یہ غیر فطری اتحاد سب کی سمجھ سے بالا تر ہے۔ ایم کیو ایم نے ہی پی پی پر الزام لگایا ہے کہ پی ٹی نے اس کے چھ اراکین کو خرید لیا ہے۔ جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کی سیٹیں بھی سینٹ میں کم ہو گئی ہیں یہی حال کے پی پی کے میں ہوا جہاں پی ٹی آئی کے اراکین نے خود کو بیچ دیا۔
ہارس ٹریڈنگ کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا عوام سب کچھ دیکھ رہے ہیں۔ سیاسی رہنما عوام کو بے وقوف نہ سمجھیں۔ پاکستانی عوام میں سیاسی شعور بیدار ہو چکا ہے۔ سوشل میڈیا کی بدولت عوام بہت خبردار اور ہوش مند ہو چکے ہیں۔ عوام اسی پارٹی کو ووٹ دیں گے جس نے ان کے لئے عملاً کوئی کام کیا ہے۔ پی پی کو قوم آزما چکے ہیں۔ آج بھی جبکہ سندھ میں پی پی کی حکومت ہے، وہاں کے عوام ایک وقت کی روٹی اور صاف پانی کوترس رہے ہیں۔ ترقیاتی منصوبے تو بہت دور کی بات ہے۔
گزشتہ چار برس میں بہت سے لوگ جو کراچی کی بدامنی اور قتل و غارت گری اور بھتہ فوری سے نالاں تھے۔ پنجاب میں خصوصاً لاہور میں آ کر آباد ہو گئے تھے۔ مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے کراچی میں امن و امان کی صورتحال کو یقینی بنایا اور اب آہستہ آہستہ وہ لوگ اپنے شہر کو لوٹ رہے ہیں۔ پنجاب کو میاں شہباز شریف نے ماڈل صوبہ بنا دیا ہے۔ جبکہ پی ٹی آئی کی حکومت نے کے پی کے کو کھنڈر میں بدل کر رکھ دیا ہے۔ دوسرے نوازشریف نے ووٹ کے تقدس اور جمہوریت کی بقا کا جو علم اٹھایا ہے۔ عوام جوق درجوق اس پرچم کے سائے تلے جمع ہونا شروع ہو گئے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ عدلیہ ایک طرح نوازشریف کی مقبولیت میں اضافے کا باعث بن رہی ہے۔ جس پر پوری مسلم لیگ (ن) کو عدلیہ اور ججز کا شکریہ ادا کرنا چاہئے۔! بقول غالب
عشق مجھ کو نہیں، وحشت ہی سہی
میری وحشت تری شہرت ہی سہی