پرامن بقائے باہمی۔تقاضائے وقت

سورۂ رحمان میں ہے کہ تمام کرے اپنے اپنے مدار پر گردش کررہے ہیں۔کشش ثقل کے تحت ایک قانون خداوندی جاری ہے جو بقائے کائنات کا ضامن ہے۔یہ سیارے کائنات کی کھلی فضاؤں میں تیر رہے ہیں۔نظم و نسق کے کلیے اور قاعدے انہیں مربوط رکھے ہوئے ہیں۔جس دن یوم نشور ہوگا کائنات کا حشر نشر ہوجائے گا۔پہاڑ روئی کے گالوں کی طرح اڑیں گے۔2005ء میں آزاد کشمیر اور ایبٹ آباد میں قیامت خیز زلزلہ آیا۔زمین کئی جگہ سے پھٹ گئی اور زندہ لوگ لقمہ اجل بن گئے۔مکان زمین بوس ہوگئے۔ہزاروں لوگ دیکھتے ہی دیکھتے اپنے پیاروں سے جدا ہوگئے۔آزاد کشمیر میں مظفرآباد اور ضلع باغ میں میرے 80 کے قریب قریبی رشتہ دار نذر مرگ ہوئے اور کئی زخمی ہوئے۔ معذور ہوئے میں اس وقت نیویارک میں تھا۔ٹی وی پر یہ مناظر دیکھ کر مبہوت ہوگیا۔ اس وقت کے وزیراعظم آزاد کشمیر سردار سکندر حیات خان کو فون کیا حادثہ جانکاہ پر افسوس کیا۔تعزیت کی۔ ان کا جواب تھا ’’مقصود جعفری میں آزاد کشمیر کا نہیں قبرستان کا وزیراعظم ہوں۔ ہر طرف رقص اجل ہے۔ تباہی ہی تباہی ہے‘‘ یہ الفاظ کہہ کر ان کی آواز رندھ گئی اور وہ فرط غم سے نڈھال ہوگئے۔ میں نے فون بند کیا تو میری سسکیوں اور آنسوؤں نے سارے اہل خانہ کو اشکبار کر دیا۔ یہ واقعہ بیان کرنے کا مقصد و مدعا صرف اور صرف یہ ہے کہ اگر مادی و کائناتی ربط و ضبط میں تبدیلی آئے تو زلزلہ آتا ہے قانون قدرت کے اپنے ضابطے اور اسرار و رموز ہیں۔ اسی طرح جب کوئی معاشرہ ربط و ضبط اور نظم و نسق کے فطری دائروں کو توڑے گا تو قانون معاشرت سے منہ موڑے گا اور عذاب والتہاب زندگی سے ناطہ جوڑے گا۔ امن عاکم اور بقائے باہمی کے لئے تعصیات، توہمات، مناقشات، تنازعات اور جذبات سے بالاتر رہ کر انسانی اقدار اور انسانی حقوق کا تحفظ لازمی امر ہے۔ رنگ و نسل، مذہب و مسلک، زبان وعلاقہ اور انسانیت و بربریت کے خول سے باہر نکل کر ہی وحدت انسانیت اور بقائے باہمی کی راہیں ہموار و استوار کی جا سکتی ہے۔ امن سے مومن ہے۔ امن سے ایمان ہے۔ جو صاحب امن نہیں وہ صاحب ایمان نہیں۔ بے عقیدہ انسان منزل تیقن سے دور صحرائے ظن و تخمین اور دشت تشکیک میں ٹھوکریں کھاتا ہے۔ اگر عقیدہ مبنی برعقل ہے تو ایمان اور اگر مبنی برجہل ہے تو وبال جان۔ بت پرستی تذلیل انسانیت ہے۔ چھوٹی چیز بڑی چیز کے سامنے سرنگوں کرتی ہے یا اس کے اردگرد گردش کرتی ہے کشش ثقل کا قانون بھی اس حقیقت کا غماز ہے۔ چاند زمین کے اردگرد اور زمین سورج کے اردگرد گھومتی ہے۔ آدم کا مقام جمادات، نباتات،حیوانات، جنات اور فرشتگاں سے بلند ہے۔ آدم کے آگے سجدہ دراصل آدم کی تمام مخلوق پر برتری کی دلیل ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ انسان کا مجدوشرف اسی میں ہے کہ وہ اپنے برتر یعنی خدائے ذوالجلال کے آگے سر جھکائے۔ پتھروں، سانپوں، دریا، آگ اور سورج کی پرستش توہین و تذلیل انساں ہے۔ توحید عظمت انسان کا درس ہے۔ مذہب کی آزادی قرآن مجید کا اعزاز ہے اجباری مسلک انسان کی آزادی کے خلاف ہے۔ ’’تحقیق اللہ کے نزدیک دین اسلام ہے‘‘۔ یعنی قرآن کتاب نصیحت و معرفت ہے اور اسلام ضابطہ حیات ہے۔ اسلام صراط مستقیم اور میزان عدل و انصاف ہے۔ اس حقیقت کے باوجود اسلام دین میں جبر و اکراہ کی حمایت نہیں کرتا۔ مذہب کے نام پر غیر مسلموں کے قتل کی مذمت کرتا ہے۔ ایک بے گناہ انسان کے قتل ناحق کو انسانیت کا قتل قرار دیتا ہے۔ سورۃ دھر کی آیت نمبر 3 میں ارشاد رب العزت ہوتا ہے۔’’بے شک ہم نے راہ دکھا دی ہے اب خواہ کوئی شکر گزار ہوجائے یا ناشکر گزار رہے‘‘ اسی طرح سورۃ بقرہ کی آیت نمبر 256 میں ارشاد ربانی ہوا۔سورۃ کافروں میں ’’تمہارے لئے تمہارا دین اور میرے لئے میرا دین‘‘کا اعلان اس حقیقت کا غماز ہے کہ اسلام نے مذہبی آزادی دے دی۔قبولیت اسلام کا احسن طریقہ قرآن مجید نے حکمت و موعظت قرار دیا۔دلیل کے ساتھ مکالمہ قرار دیا۔آج مکالمیہ بین المذاہب پر اہل مغرب زور دے رہے ہیں جبکہ چودھری صدیاں قبل حسن مکالمہ بہ طرز و طریق حکمت و دلیل ہمیں قرآن مجید نے بتایا۔افسوس صد افسوس یہود و ہنود کے چند گماشتوں نے اسلام کا نعرہ لگا کر دہشت گردی اور انتہا پسندی اپنالی۔فرقہ واریت عام ہے اور مسلمان بدنام ہے۔ مسجدوں پر حملے ہو رہے ہیں۔ اب تو امریکہ اور یورپ پر غیر مسلموں نے ہماری مساجد پر حملے شروع کر دیئے ہیں۔قومی اور عالمی سطح پر معتدل علمائ، مشائخ اور دانشوروں کی ایسی جماعت کی ضرورت ہے جو اسلام کی پرامن تعبیر و تفیسر کرے۔ فلسفیوں میں نظریاتی اختلافات ہوتے ہیں مگر ان کے پیروکار اکثر و بیشتر پرامن انداز میں مدلل بحث و تمحیص کرتے ہیں۔ان کا مطمع نظر دلائل و براہین سے اصلاح نظریات ہوتا ہے۔جبکہ مولویوں اور پادریوں کو علمی مباحث سے غرض نہیں ہوتی۔’’وہ ’’مباحثہ‘‘کی جگہ ’’مناظرہ‘‘کرتے ہیں اور مناظرہ ہارنے والا گروہ ’’مجادلہ‘‘پر اتر آتا ہے۔اسی طرح سیاست دان بھی اپنے مخالف گروہ کو زیر کرنے کے لئے ہر قسم کا حربہ استعمال کرتے ہیں۔بیان بازی، الزام تراشی اور دشنام طرازی ان کا ’’وطیرہ‘‘ہوتا ہے۔دراصل مذہبی رہنماؤں اور سیاست دانوں کے مالی مفادات انہیں شائستگی سے دور اور برگشتگی سے قریب تر کردیتے ہیں۔مذہبی رہنما جنت کی بشارت دے کر اپنے لئے دنیا بہشت اور مریدوں کے لئے دنیا دوزخ بنادیتے ہیں۔عیسائی پادری تو سال ہا سال تک جنت کے ٹکٹ بیچتے تھے اور گناہ کے کفارہ کے لئے لوگوں سے پیسے بٹورتے تھے۔آجکل ہمارے بھی کچھ مولوی اور پیران طریقت سادہ دل مریدوں سے جنت کا سودا کرتے ہیں۔بریں عقل و دانش ببایدگریست۔چند مذاہب کے علماء آپس میں اس بات پر جھگڑرہے تھے کہ ان کا مذہب درس امن دیتا ہے ہر ایک کے ہاتھ میں تلوار تھی۔ایک شخص نے ان سے کہا کہ کیا مذاہب کو داعی امن ثابت کرنے کے لئے خون خرابہ ضروری ہے۔تم لوگ دلیل و برہان کی بجائے تلواریں سونتے ایک دوسرے کی گردن اڑانے پر آمادہ ہوکای یہی تمہارا دعویٰ امن ہے۔امن کو امن سے قائم رکھا جاسکتا ہے نہ کہ فتنہ و فساد سے۔تاریخ انسان خون سے لبریز ہے۔مذہب کے نام پر کشت و کشتار کی داستان دلدوز اور سبق آموز ہے۔اے کاش ہم ’’جیئو اور جینے دو‘‘کو روح مذہب مان لیں اور حقیقت ابدی و سرمدی جان لیں۔عظمت انسان پہنچان لیں ۔’’جہاد‘‘کے نام پر آج ‘‘فساد‘‘عام ہے قرآن مجید میں ان فسادیوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا کہ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد برپانہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم تو مصلحین ہے۔سورۃ محمدؐ کی آیت نمبر 21 میں حکم جہاد کی قطعیت کے بعد جہاد کے نام پر فساد و فتنہ بپا کرنے والوں کی سرزنش کرنے کے بعد آیت نمبر 22 میں ارشاد ربانی ہوتا ہے ’’پس تم سے توقع یہی ہے کہ اگر تم حکومت حاصل کرلو تو تم زمین پر فساد بپا کرو گے‘‘۔افسوس صد افسوس آج جہاد کے نام پر فساد بپا ہے۔مسلمان مسلمان کا گلہ کاٹ کر اس کی لاش کا مثلہ کررہا ہے۔ان کی بے حرمتی کررہا ہے۔انہیں ذبح کرکے ان کے سروں سے فٹ بال کھیل رہا ہے۔عورتوں کو مباح قرار دے کر کلمہ گو خواتین سے زنابالجبر کررہا ہے۔ الحفیظ والاماں۔

پروفیسر ڈاکٹر مقصود جعفری

ای پیپر دی نیشن