بھارت کی طرف سے ہمارے خلاف جارحانہ اور اشتعال انگیز کاروائیاں جاری ہیں ۔ دراصل یہ کوئی نئی بات نہیں ہے کیونکہ بھارت پر اکھنڈ بھارت کا بھوت ابھی تک سوار ہے۔ اور اس نے پاکستان کے قیام کو کبھی دل سے قبول نہیں کیا۔ اور آزادی کے بعد سے بھارت میں قائم ہونے والی تمام حکومتوں کی پاکستان دشمنی اور ہمیں صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوششیں لگاتار جاری ہیں۔اگر ہم ایک نظر ماضی پر ڈالیں تو یہ حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے۔ آزادی جن اصولوں اور ضوابط پر مبنی تھی اس کی بھارت نے کھلی خلاف ورزیاں کیں۔ مثلاً حیدر آباد (جوناگڑھ)کو اصولاً پاکستان میں شامل ہونا تھا بھارت نے اس پر غیر قانونی طور پر قبضہ کرلیا۔ اسی طرح کشمیر جو کہ پاکستان کا حصہ بننا تھا اس پر وہ قابض ہوگیا اور جب ہماری طرف سے مجاہدین اور کشمیری جانثاروں نے وہاں حملہ کرکے کشمیر کا ایک حصہ آزاد کروالیا تو بھارت اقوام متحدہ جانے پر مجبور ہوگیا۔ جسکے نتیجے میں کشمیر میں رائے شماری پر اتفاق ہوا لیکن ایک لمبا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھارت کی ھٹ دھرمی کی وجہ سے یہ ابھی تک نہیں ہوئی۔ مقبوضہ کشمیر میں ابھی تک ہزاروں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے۔ جن کی اجتماعی قبریں اس کا ثبوت ہیں۔ سینکڑوں افراد کو قتل کرکے دریا برد کردیاگیا ہے۔ قصہ مختصر بھارت ہمیں ہر طریقے سے زک پہنچانے کا کوئی موقعہ ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔
دنیا کی بڑی طاقتیں بھارت کے ساتھ سرمایہ کاری کرنے میں مصروف عمل ہیں کیونکہ قدرتی طور پر بھارت میں خام مال بڑی مقدار میں پایا جاتا ہے اور اپنے مفادات حاصل کرنے کی خاطر یہ سپر پاورز بھارت کی ہر زیادتی کو نظر انداز کردیتی ہیں۔ اقوام متحدہ کی قرار دادوں پر عمل درآمد نہ ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔ اس وقت جب کہ پاک بھارت کشیدگی اپنے عروج پر ہے اسکے باوجود امریکہ بھارت پر دباؤ نہ ڈالنے کیلئے مجبور نظر آتا ہے۔ وہ پاکستانی کاوشوں کو سراہتا ضرور ہے مگر اپنی سرمایہ کاری کو پس پشت نہیں ڈالنا چاہتا۔ اس بات کا اعتراف بارہا امریکی اخبارات اور میڈیا کرچکے ہیں۔ بلکہ بہت سے اخبارات نے بھارت کے فرسودہ جنگی سازو سامان کاذکر کرکے پوشیدہ رازوں کو بھی فاش کردیا ہے۔
انڈیا میں بی جے پی پارٹی کا واحد مقصد پاکستان کو نقصان پہنچانا اور تباہ کرنا نظر آتا ہے۔ بال ٹھاکرے اور دوسرے رہنما کھلم کھلا مسلم دشمنی کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پاکستان کو تباہ کرنے کیلئے وہ نت نئی سازشیں اور منصوبے تیار کرتے رہتے ہیں۔ اس وقت بی جے پی نے پھر سے برسراقتدار آنے کی خاطر پاکستان دشمنی کو مول لیا ہے۔ اور اپنی تلوار کی نوک پر رکھ دیا ہے تاکہ اپنے مفادات حاصل کیے جاسکیں۔ اس سارے عمل کامقصد حب الوطنی یا اپنے دیش سے وفاداری نہیں ہے کیونکہ سانحہ پٹھان کوٹ اور پلوامہ وفاداری کا ثبوت نہیں بلکہ غداری اور ذاتی مفاد کا نتیجہ ہیں۔ اور بھارتی عوام اور میڈیا اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہیں ۔مگر اللہ تعالی کا شکر ہے کہ ہماری مسلح افواج جس کو دنیا کی بہترین فوج ہونے کا اعزاز حاصل ہے اور جن کو عوام کا مکمل تعاون حاصل ہے۔ ملکی دفاع کو یقینی بنانے میں کامیاب ہیں۔ اصل مسئلہ جس کی طرف اہل وطن کی توجہ مبذول کرانا چاہتا ہوں وہ یہ کہ اب ہمارا دشمن ہمارے دریاؤں کا پانی جو کہ کشمیر سے نکلتے ہیں بند کرنے کیلئے بڑی تیزی سے ڈیم تعمیر کررہا ہے۔ اسی لیے ہمارے قائد حضرت قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہہ رگ قرار دیا تھا کیونکہ ہمارے سارے دریا وہیں سے نکلتے ہیں۔ اور بھارت انکا پانی روک کر ہمارے ملک کو صحرا میں تبدیل کرنا چاہتا ہے۔ اس لئے میں قارئین کی توجہ اس بات پر مذکور کروانا چاہتا ہوں کہ ہمارا موسم برسات کے دوران حاصل ہونے والا لاکھوں کیوسک پانی سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے۔ اس ضیاع کو روکنے اور ملک میں پانی ذخیرہ کرنے کیلئے آبی ذخائر کی تعمیر ناگزیر ہے۔ انگریزی کی مثل مشہور ہے کہ Time & tide wait for non یعنی وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ ملک میں کالاباغ ڈیم کی تعمیر ہماری بقا کیلئے ناگزیر ہے مگر بد قسمتی سے اس پر ملک میں اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے اسکی تعمیر نہیں ہوسکی۔ اس سلسلے میں صوبہ سندھ کی طرف سے جو اعتراضات ہیں وہ حقیقت پر مبنی نہیں۔ یہ مخالفت برائے مخالفت کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس سلسلے میں بہت سی تحقیقات عمل میں آئیں اور ان سے ثابت کیا گیا انکے تحفظات غلط فہمی پر مبنی ہیںاور اس بات کا بھی ثبوت موجود ہے کہ بھارت کالا باغ ڈیم کی مخالفت میں بھی پوری طرح ملوث ہے اور چند ملک دشمن پاکستانی افراد کو وہ اس سلسلے میں کروڑوں روپے مہیا کررہا ہے۔
قارئین میری اپنی حکومت سے التجا ہے کہ وہ اس مسئلے پر جنگی بنیادوں پرکام کرے اور چھوٹے ڈیمز کی تعمیر کے علاوہ کالاباغ ڈیم کیلئے ملک میں ریفرنڈم کرایا جائے اور اسکے مخالفین کے لایعنی اعتراضات کا بھر پور جواب دیا جائے۔ امید ہے ہمارے وزیر اعظم جو کہ کثرت رائے سے اقتدار میں آئے ہیں وہ اس مسئلے کو حل کرنے پر پوری شد و مد سے کام کریں اور اپنے وزرا کو بھی اس سلسلے میں اپنا کردار ادا کرنے پر معمور کریں۔اگر ہمارے وزیر اعظم اور موجودہ حکومت کالا باغ ڈیم بنوانے کیلئے صدق دل سے کوشش کریں اور اگر وہ اس ڈیم کو بنانے میں کامیاب ہوجائیں تو ان کا نام تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھا جائیگا۔
’’بڑے ڈیم کی تعمیر ناگزیر ہے‘‘
Mar 17, 2019