اسلام آبادمیں سابق ممبر اسٹیٹ سی ڈی اے بریگیڈئر (ر) اسد منیر نے نیب تفتیش سے تنگ آ کر گزشتہ شب ڈپلومیٹک انکلیو میں اپنے فلیٹ میں خود کشی کر لی۔ سونے سے پہلے اہلیہ سے کہا نیب میرا پیچھا کیوں نہیں چھوڑتا اور پھر رات کسی وقت گلے میں پھندا ڈال کر پنکھے سے لٹک کر جان کا خاتمہ کر لیا۔ نیب نے ایک روز قبل ہی اُن کے خلاف ریفرنس کی منظوری دی تھی ، ایک ٹائپ شدہ تحریر میں اُنہوں نے لکھا ہے ’’نااہل افراد لوگوں کی عزت سے کھلواڑ کر رہے ہیں‘‘ اُنہوں نے یہ بھی لکھا کہ اس اُمید پر جان دے رہا ہوں کہ اس نظام میں مثبت تبدیلیاں لائی جائیں گی۔
قبل ازیں نیب تفتیش کے دوران سرگودھا یونیورسٹی کے زیر حراست ڈائریکٹر بھی جان سے گزر چکے ہیں۔ نیب کے انداز تفتیش پر سپریم کورٹ کے بھی سخت ریمارکس آ چکے ہیں۔ صدر جنرل مشرف نے بظاہر نیب کو کرپشن کے خاتمے کے لیے بنایا مگر اصل مقصد اس ’’کوڑے‘‘ کے ذریعے سرکش سیاستدانوں کو مطیع بنانا تھا۔ کون نہیںچاہے گا کہ ملک کو کرپشن اور بدعنوانی سے نجات دلائی جائے اور قصور وار اور کرپٹ لوگوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے چونکہ اس ادارے کے قیام میں اخلاص کی بجائے، اغراض کارفرما تھیں۔ اس لیے اس سے ملک و قوم کا کوئی بھلا نہ ہو سکا۔ مشرف کے بعد پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن اقتدار میں آئیں لیکن اُنہوں نے اس کی خرابیوں کو دور کرنے کی اس لیے کوشش نہ کی کہ اُنہیں مفت میں ایک ہتھیار مل گیا تھا ، جس کی مدد سے مخالفین سے نبٹنا آسان ہو گیا۔ آج تقریباً عام سیاسی جماعت نیب قوانین میں ترمیم و اصلاح کی حامی ہیں لیکن اس حوالے سے کوئی اقدام نہیں ہو رہا۔ حالانکہ سیاسی ، عوامی اور عدالتی حلقوں کی طرف سے نیب کے طریق کار پر شدید اعتراض ہو رہے ہیں۔ یہ شکایت تو عام ہے کہ پہلے بندہ پکڑا جاتا ہے اور پھر اُس پر لگانے کے لیے الزامات کی تلاش شروع ہوتی ہے۔ مہذب معاشروں میں جرم ثابت ہونے سے پہلے کسی کو مجرم ٹھہرانا، اس کی تضحیک اور کردار کشی کرنا انصاف کے قتل کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ قوم کو کرپشن سے پاک معاشرہ چاہئے لیکن انسانی شرف و عزت اور وقار کی تذلیل کی قیمت پر نہیں۔ یہ سوچ کر نیب کے اس رویے پر حیرانی میں اضافہ ہو جاتا ہے کہ اس ادارے سے وابستہ بعض ذمہ داران کا تعلق عدالت و قانون سے رہا ہے ا ور وہ اپنی انصاف پسندی کے لیے بہت مشہور تھے۔ کہیں نیب اُن کے لیے کانِ نمک تو ثابت نہیں ہوا !