نئی دہلی (نوائے وقت نیوز) نیوزی لینڈ کے شہر کرائسٹ چرچ کی مساجد میں مسلمانوں کے قتل عام پر بھارت میں ہندو توا کے پیروکاروں نے جشن منایا۔ بھارتی فوج کے سابق افسران سمیت ہزاروں ہندو انتہاپسندوں نے سوشل میڈیا پر آکر سفید فام دہشت گرد کے اقدام کا دفاع کیا اور اسے ’’انتقام‘‘ قرار دیا۔ ہندو توا کے پیروکاروں‘ بھارتیوں کا رویہ اتنا غلیظ ثابت ہوا کہ بھارتی مسلمانوں اور پاکستان کے کٹر مخالف پروفیسر طارق فتح بھی چلا اٹھے۔ بھارتی صحافی برکھادت نے کرائسٹ چرچ کے حملہ آور کو دہشت گرد قرار دیا تو ہندو توا کے پیروکاروں نے ان پر چڑھائی کر دی۔ نیوزی لینڈ کے واقعے نے ایک بار پھر یہ بات ثابت کر دی ہے کہ بھارتی ہندو توا کے پیروکاروں کی نظر میں ان کا دشمن پاکستان نہیں بلکہ دنیا بھر کے مسلمان ہیں۔ کرائسٹ چرچ دہشت گردی کے بعد بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے نیوزی لینڈ کی ہم منصب کے نام ایک خط میں تعزیت کا اظہار کیا اور واقعے پر رسمی مذمت کی‘ تاہم 49 مسلمانوں کی شہادت پر بھارت میں جشن منایا جاتا رہا۔ بھارت کے بڑے انگریزی اخبار ٹائمز آف انڈیا نے اپنی شہ سرخیاں مسلمانوں کے قتل کی نہیں لگائیںبلکہ لکھا کہ ’’سفید فام قوم پرست انتقام لینا چاہتا تھا۔‘‘ اس سرخی کے نیچے امریکی خبررساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کی خبر لگائی گئی جس میں گورے دہشت گرد کا تمام مؤقف پیش کیا گیا۔ خبر کے نیچے سینکڑوں بھارتیوں نے تبصرے کئے جو تبصرہ سب سے زیادہ مقبول الزام ایک سابق کرنل ماتھیز کا تھا جس نے کہا کہ آسٹریلوی پرامن لوگ ہیں۔ اصل مجرم مسلمان ہیں جنہوں نے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے لوگوں کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ کمل ناتھ سنگھ نے لکھا کہ کیا ہم کہہ سکتے ہیں کہ پلوامہ کا انتقام لے لیا گیا۔ دیگر تبصروں میں بھی اسی طرح کرائسٹ چرچ دہشت گردی کی حمایت کی گئی۔ یہ صرف ایک ویب سائٹ کا احوال ہے۔ سوشل میڈیا پر بھارتی ہندو انتہاپسندوں نے بڑھ چڑھ کر پلوامہ حملے اور کرائسٹ چرچ دہشت گردی کو مساوی قرار دینے کی کوشش کی حالانکہ اس حملے کے بعد بھارت کے شہری 9 مسلمان بھی لاپتہ ہیں‘ لیکن پورے بھارت میں جشن کا ماحول رہا۔ ’’آج تو کرائسٹ چرچ کی خوشی منانے کا دن ہے۔‘‘ ایسا لگتا ہے وہ (ویڈیو گیم) پب جی کھیل رہا ہے۔ ’’مجھے افسوس ہے کہ شوٹر اتنا کمزور تھا کہ وہ درست ٹارگٹ نہیں ڈھونڈ سکا۔ بنگلہ دیش کرکٹ ٹیم وہیں تھی۔ ’’ایک گیند 54 وکٹ‘‘ وہ چند ایک تبصرے ہیں جو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئے۔ ہندو انتہاپسندوں نے یہ بھی لکھا کہ نیوزی لینڈ میں مساجد کا کیا کام تھا۔ مغربی معاشرہ اب اسلام کے خلاف پیدا ہو گیا ہے۔ بھارتی ذرائع ابلاغ بھی حملہ آور کو دہشت گرد کے بجائے ’’شوٹر‘‘ کہتے رہے۔ معروف صحافی برکھادت نے جب ٹوئٹر پر لکھا کہ جو کرائسٹ چرچ حملہ آور کو دہشت گرد نہیں کہے گا وہ ذہنی مریض ہوگا تو تمام انتہاپسندوں نے ان پر چڑھائی کر دی۔ یہ جشن اس حد تک بڑھا کہ پاکستان مخالف پروفیسر طارق فتح نے کہا کہ اب اگر مزید کسی نے خوشی منا کر انہیں ٹیگ کیا تو اسے ہلاک کر دیں گے۔ یاد رہے کہ طارق فتح نہ صرف پاکستان کے سخت مخالف ہیں بلکہ بھارتی مسلمانوں کو بھی اکثر مشورے دیتے رہتے ہیں کہ وہ بابری مسجداور دیگر مساجد کی جگہ ہندوئوں کے حوالے کر دیں‘ لیکن 49 افراد کے قتل پر جشن منانے والے ہندو توا پیروکاروں کا کراہت سے بھرپور چہرہ سامنے آنے پر طارق فتح کی بھی بس ہو گئی۔