ملک میں کرونا وائرس کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد تشویشناک ہے۔ مریضوں کی تعداد بڑھنے کا مطلب ہے کہ وائرس پھیل رہا ہے۔ کرونا کی وجہ سے دنیا بھر میں ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔ وہ تمام ترقی یافتہ ممالک جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں بہت ترقی کر چکے ہیں انکی مالی حیثیت بھی مضبوط ہے، انہیں ساز و سامان و آلات کی بھی کمی کا سامنا نہیں ہے وہ تمام ممالک کرونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے، توڑ کرنے اور اسکا علاج دریافت کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں یہی وجہ ہے کہ سرحدیں بند کی جا رہی ہیں۔ فضائی سفر پر پابندی لگ چکی ہے۔ آمدورفت محدود ہو گئی۔ دنیا کے پرکشش شہر اور سیاحتی مقامات ویران ہو چکے ہیں۔ ساحل خالی خالی ہیں۔ دنیا میں کوئی ایسی جگہ نہیں بچی جہاں زندگی معمول پر نظر آتی ہو۔ اگر دنیا کے ترقی یافتہ ممالک کرونا وائرس کے مقابلے میں ناکام ہیں۔ ان حالات میں پاکستان کو ضرورت سے زیادہ محتاط رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ احتیاط ہی واحد بہترین اور سستا راستہ ہے جو ہمیں اس خطرناک وائرس سے بچا سکتا ہے۔ حکومتی سطح پر اقدامات بارے ہمیں حقیقت پسندانہ رویہ اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔ وسائل کی کمی مسئلہ تو ہے لیکن ہنگامی حالات میں پیسوں کے بجائے انسانی زندگیوں کی اہمیت زیادہ ہے بلکہ دونوں کا کوئی موازنہ ہی نہیں ہے۔ انسانی جان کا کوئی متبادل نہیں ہو سکتا۔ اس لیے حکومت کو انسانی جانیں بچانے کے لیے ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ایک رائے یہ پائی جاتی ہے کہ حکومت ابھی تک مناسب عملی اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے۔ مسلم لیگ ق کے رہنما مونس الٰہی کہتے ہیں کہ عوام کرونا وائرس کی وجہ سے پریشان ہیں۔ عوام کو حکومت کے بیانات کے بجائے عملی اقدامات کے منتظر ہیں۔ بڑے خطرے کے پیش نظر ہسپتالوں میں تیاری ناکافی ہے۔ صحت کے ذمہ دار بیرون ملک ماسک بھیجنے کے بجائے اپنے ٹاسک پر توجہ دیں۔لوگ ہزاروں روپے کے ٹیسٹ کروانے پر مجبور ہیں۔ دوسری طرف ملائشیا جنوبی ایشیائی ممالک کرونا سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والا ملک بن گیا ہے۔ ملائشیا میں ایک دن میں ایک سو اڑتیس سے سے زائد افراد متاثر ہوئے ہیں۔ ملائشیا نے اپنے شہریوں کے بیرون ملک اور غیر ملکیوں کی آمد پر پابندی عائد کر دی ہے۔ ملائشیا آنے والوں کو چودہ روز تک قرنطینہ میں رہنا پڑے گا۔ ترکی نے حفاظتی اقدامات کے پیشِ نظر نماز جمعہ اور باجماعت نمازوں کو بھی روک دیا گیا ہے۔ ترکی میں بازار، شیشہ خانے، انٹرنیٹ کیفے، شادی ہال،قہوہ خانے، تھیٹرز، اجتماعی مراکز اور سینما گھر بھی بند کر دیے گئے ہیں۔ متحدہ عرب امارات میں بھی تمام عبادت گاہیں چار ہفتوں کے لیے بند کر دی گئی ہیں۔ سوئٹزرلینڈ میں بھی ہلاکتیں ڈیڑھ درجن سے زائد ہو چکی ہیں۔
پاکستان میں کرونا متاثرین کی تعداد ایک سو ستر سے تجاوز کر چکی ہے۔ سندھ سب سے زیادہ متاثر ہے۔ پریشان کن چیز یہ ہے کہ وائرس پورے ملک میں پھیل چکا ہے۔ ان حالات میں ہمیں مذہبی و سماجی معاملات میں جذباتی ہونے کے بجائے حقیقت پسندانہ زندگی میں رہتے ہوئے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر دنیا بھر میں مذہبی اجتماعات پر پابندی لگائی جا رہی ہے تو ہمیں بھی اس حوالے سے بروقت اور بہتر فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔ حکومتی سطح پر پہلے ہی خاصی تاخیر سے کام کیا گیا ہے۔ کئی انتظامی غلطیاں ہوئی ہیں جن کی وجہ سے آج ہمیں وائرس پھیلتا دکھائی دے رہا ہے۔ ہمیں اپنے بارڈرز، سرحدوں اور فضائی سفر پر بھی حقیقت پسندانہ فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔
کرونا وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام کو اپنا رویہ بہتر بنانے اور ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ابھی تک عوام اس عالمی خطرے کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ اس وائرس کا مقابلہ کرنے کے لیے شعور اور ذمہ داری سب سے اہم ہے۔ احتیاط لازم ہے آج بھی کراچی کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے کہا ہے کہ عوام کو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ تعلیمی ادارے بند ہوئے ہیں تو ساحل سمندر بھر گیا ہے۔ اگر عوام نے رویہ نہ بدلا تو سخت فیصلے کرنا پڑیں گے۔ دنیا بھر میں ریستوران بند ہو رہے ہیں تو ہمیں بھی سمجھنا ہو گا کہ یہ وقت زبان نہیں دماغ کے استعمال کا ہے۔ دیکھیں مہذب دنیا کیا کر رہی ہے ہمیں وقت ملا ہے کہ خود اس وائرس سے بچا لیں ہم خود کو وائرس کے سپرد نہ کریں۔ اگر بچنے کا موقع ملا ہے تو اس سے فائدہ ضرور اٹھانا چاہیے۔