آجکل ہم پاکستان میں موجود ہیں۔ کرونا ہمارے پیچھے پہنچ گیا ہے۔ ترقی یافتہ سپرپاورز کو ناکوں چنے چبوا رہا ہے۔ ہمیں اپنے بچوں کے پاس امریکہ لوٹ جانے کے بھی مشورے دئیے جا رہے ہیں جبکہ امریکہ خود اس وبا کا بری طرح شکار ہے۔ جو جہاں بیٹھا ہے آرام سکون سے احتیاطی تدابیر کرے۔وائرس پریشان ہونے سے نہیں سائنسی اور روحانی تدابیر سے ٹل سکتا ہے۔ ماضی میں متعددخوفناک وباؤں نے بڑے پیمانے پر انسانی آبادی کو درہم برہم کر کے رکھ دیا اور ان کے مقابلے پر موجودہ کرونا وائرس کی وبا کی کوئی حیثیت نہیں۔ ویسے تو طاعون کی بیماری وقتاً فوفتاً سر اٹھاتی رہی ہے، لیکن 1772 ء میں ایران میں ایک ہیبت ناک وبا پھوٹ پڑی۔ اس زمانے میں اس موذی مرض کا کوئی علاج نہیں تھا جس نے پورے ملک کو لپیٹ میں لے لیا۔ ایک زمانے میں سورج گرہن اور چاند گرہن خوف کا باعث ہوا کرتے تھے، لوگ سورج گرہن یا چاند گرہن لگنے پر خوف زدہ ہوجاتے تھے، بے یقینی کا شکار ہوجاتے تھے کہ پتا نہیں اب سورج ٹھیک ہوگا یا نہیں، چاند ٹھیک ہوگا یا نہیں، آج ہمیں سائنس کی بدولت نہ صرف سورج گرہن اور چاند گرہن کی وجہ معلوم ہے بلکہ یہ بھی معلوم ہے کہ یہ گرہن کتنی دیر تک رہے گا اور کب ختم ہوجائے گا۔سائنس سے خائف طبقہ آج بھی یہی سمجھتے ہیں کہ سورج گرہن یا چاند گرہن اس لئے لگتے ہیں کہ یہ اللہ کی گرفت میں آجاتے ہیں۔ بلا شبہ ہر چیز کے پیچھے قدرت کار فرما ہے لیکن ہر چیز وجہ عذاب نہیں ہوتی البتہ وارننگ ضرور ہو سکتی ہے۔کرونا وائرس ایک وبا ہے جو جس تیزی سے پھیل رہی ہے اتنی ہی تیزی سے غائب ہو جائے گی۔بیماری وبا آفات مصائب آزمائش مشکلات بے شک قادر مطلق کے حکم سے نازل ہوتی ہیں اور حقیقی سپرپاورکے حکم سے ہی ٹل سکتی ہیں۔ انسانی دماغ اور سائنس قدرت کے محتاج ہیں۔ خالق ‘‘کن ‘‘کہہ دے دوا میں تاثیر آجاتی ہے ورنہ بندہ ارب پتی ہوتے ہوئے حالت مفلسی و بے بسی میں جان دے دیتا ہے۔ مشاہدہ یہی بتاتا ہے کہ سائنس نے جوں جوں ترقی کی امراض اور آفات میں توں توں اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اور آج یہ عالم ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سپر پاورز بھی مہلک وبائوں پر قابو پانے میں ناکام دکھائی دیتے ہیں۔ بڑے بڑے سائنسدانوں اور تحقیق دانوں کے آفات و امراض کے آگے ہاتھ پائوں پھول جاتے ہیں۔ترقی یافتہ سپر پاورز کو ایک وبا کے سامنے بوکھلاہٹ کاشکار دیکھ کر ایک مومن کا ایمان مزید بڑھ جاتا ہے کہ حقیقی قادر اور سپر پاور فقط لا شریک الا للہ ہے۔بندہ جتنا بڑا طورم خان بن جائے قدرت کی ایک ‘‘کن’’ کا محتاج ہے۔امریکہ کا مشہور ہسپتال جان ہاپکن کا ایک ڈاکٹر پروفیسر کا انٹرویو سْنا، وہ کہتا ہے کہ اگر امریکہ میں اس وقت 1600 کرونا وائرس کے کیس ہیں تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ ان کی ٹوٹل تعداد صرف 1600 ہے... پروفیسر کے مطابق اس وقت امریکہ میں کرونا کی تعداد 50،000 سے ایک ملین ہے۔۔۔ جو آگے چل کر بہت زیادہ ہوسکتی ہے۔۔۔اس سے بھی زیادہ خطرناک بات جو پروفیسر نے بتائی، اس وقت امریکہ میں ICU کے بیڈ ایک لاکھ ہیں، آنے والے دنوں میں کرونا کے مریض جن کو ICU کی ضرورت پڑے گی وہ دو لاکھ سے دو ملین مریضوں تک ہوسکتی ہے.۔ تمام دنیا اس وقت کم از کم ایک مہینے شٹ ڈاون کے لیے ذہنی طورپر تیار ہے۔۔۔لوگوں نے ایک مہینے کا راشن جمع کرلیا ہے۔انسان ہر معاملہ میں دنیاوی طریقہ کار استعمال کرے بقیہ نتائج اللہ کے ہاتھ میں دے اللہ کے رسولؐ نے فرمایا کہ پہلے اونٹ رسی سے باندھو پھر اللہ پر توکل کرو۔ خانہ کعبہ جس کے لیے کروڑوں مسلمان جان دینے کو تیار ہوں اللہ کے رسولؐ نے فرمایا‘‘ خدا کی قسم اس کعبہ کی حرمت انسانی جان سے زیادہ نہیں ‘‘۔طاعون کی وباء کے موقع پر اللہ کے رسول نے چودہ سو سال قبل سفری حفاظتی ہدایات کو نافذ کیا کہ وبا والے علاقوں سے نہ کوئی اندر جائے اور نہ کوئی باہر آئے۔اللہ کریم نے کوئی ایسی بیماری نہیں رکھی جس کا علاج نہ ہو مگر یہ نشانیاں ہیں عقل والوں کے لئے ۔کورنا وائرس کو مذاق نہ بنائیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تنبیہ ہے۔ وارننگ ہے۔حدیث پاک کا مفہوم ہے کہ جب فحاشی بڑھ جائے گی تو اللہ ایسی بیماریوں کو پیدا کر دے گا جس کا ذکر کبھی کسی نے سنا نہ ہوگا۔اس وقت ہمیں اس بیماری کا مذاق اڑانے کے بجائے اللہ کی طرف فوراً رجوع کرنا چاہئے۔ کثرت سے استغفار کرنا چاہئے اور اْن تمام کاموں سے توبہ کرنا چاہئے جو اللہ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں۔ نماز پڑھ کر، خوب توبہ استغفار کر کے اور صدقات کرکے ہم اس مصیبت سے بچ سکتے ہیں۔ جس طرح یہ بیماری تیزی سے ملکوں اور ہر علاقے کے طرف بڑھ رہی ہے اس پر بہت سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔کثرت سے توبہ استغفار اور صدقات کو ادا کرنیکی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جو بھی احتیاطی تدبیر اختیار کرنا چاہیں ان سب تدبیروں کو اختیار کرنا چاہئے۔ لوگوں سے ہاتھ ملانے سے احتیاط کریں۔ چھینکتے وقت اور کھانستے وقت منہ کو اچھی طرح ڈھانپیں۔ باہر سے گھر آکر اچھی طرح صابن سے ہاتھ دھوئیں۔ بغیر ہاتھ دھوئے کسی چیز کو ہاتھ نہ لگائیں خصوصاً کھانے پینے کی چیزوں کو۔ لوگوں سے میل جول کے وقت سفر کرتے وقت ماسک لگائیں۔ کوشش کریں جس سے بھی آپ مخاطب ہوں بات چیت کے دوران کم از کم ایک سے دو میڑ کا فاصلہ رکھیں۔ غیر ضروری طور پر گھر سے باہر نہ جائیں۔ بچوں کو باہر کھیلنے سے منع کریں ان کو ہاتھ دھونے کی عادت ڈالیں۔ بغیر صابن سے ہاتھ دھوئے کوئی چیز کھانے پینے نہ دیں۔ باہر کی اشیاء کھانے سے مکمل احتیاط کریں۔پنج وقت وضو یعنی ناک میں پانی ڈالنے ہاتھ منہ دھونے سے بہتر احتیاط کیا ہو گی ؟ ہمارے ہاں عام طور پر سائنس کو مذہب کے مخالف سمجھا جاتا ہے اور یہی سوچ بچپن سے بچوں کے دماغ میں ڈالی جاتی ہے اور اسی سوچ کو لے کر وہ بڑے ہوتے ہیں اور ساری زندگی بنا سوچے سمجھے سائنس کو اپنا دشمن سمجھتے رہتے ہیں۔ ہمیں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سائنس کا مذہب سے کوئی تعلق نہیں، نہ ہی سائنس کسی کی دشمن ہے۔ سائنس تو ایک ایسا علم ہے جس کا مقصد ساری بنی نوع انسان کے فائدے کے لئے کام کرنا ہے، لوگوں کی زندگیوں کو آسان کرنا ہے، نا معلوم گوشوں کو معلوم کرنا ہے۔