٭ ذکر قساوت قلبی کا خاتمہ کردیتا ہے ۔ بندے کو چاہئے کہ ذکر الہٰی سے اپنے دل کی سختی کاعلاج کرے ۔ایک آدمی نے حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ سے اپنے دل کی سختی کاشکوہ کیا۔آپ نے فرمایا: ’’ذکرالہٰی سے اسے نرم کرو۔ کیونکہ قساوت قلبی کا سبب غفلت ہے۔ جب بندہ اللہ کا ذکر کرتا ہے تو قساوت اس طرح پگھل جاتی ہے جس طرح سیسہ۔‘‘
٭ ذکر دل کے لئے شفاء اورعلاج ہے اورغفلت اس کی بیماری ۔پس بیماردلوں کی شفاء اللہ کا ذکر ہے۔ شیخ مکحول رحمۃ اللہ علی فرماتے ہیں :’’اللہ کے ذکرمیں شفاء ہے اورلوگوں کا ذکر بیماری کا باعث ہے۔‘‘ ’’جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو تمہارے ذکر کے ساتھ علاج کرتے ہیں اورجب کبھی ذکر کو ترک کردیں توپھر بیمار ہوجاتے ہیں۔‘‘ ذکر،محبت الہٰی کی بنیاد ہے اورغفلت عداوت پر وردگار کی اصل ہے بندہ اپنے رب کا ذکر کرتے ہوئے اس مقام پر فائز ہوجاتا ہے کہ رب کریم اسے محبت عطاکرکے اپنا دوست بنالیتا ہے۔ اسی طرح جب بندہ اپنے رب سے غافل ہوجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ ناراض ہوکر اسے اپنا دشمن قرار دے دیتا ہے ۔ بندے کی اپنے رب سے سخت ترین دشمنی کی علامت یہ ہے کہ وہ اس کے ذکر کو ناپسند اوراس کے ذاکر کو برا جانتا ہے ۔اوراس کا سبب غفلت ہے اور بندہ اسی غفلت کی وجہ سے ذکر اورذاکرین کو ناپسند کرتا ہے ۔اس وقت اللہ تعالیٰ اسے اپنا دشمن بنالیتا ہے ۔جس طرح کہ ذکر کرنے والے کو اپنا ولی بنالیتا ہے۔
٭دائمی ذکر کرنے والا مسکراتا ہواجنت میں داخل ہوگا۔ جس طرح ابودرداء رضی اللہ عنہ نے فرمایا:’’وہ لوگ جن کی زبانیں اللہ عزوجل کے ذکر سے تررہیں گی وہ جنت میں مسکراتے ہوئے داخل ہوں گے۔‘‘
٭ذکر بندے اورجہنم کے درمیان رکاوٹ ہے۔ جب بندہ اپنے کسی عمل کی وجہ سے جہنم کے راستے کی طرف جائے گا۔ تو ذکر اس کے راستے میں رکاوٹ بن جائے گا۔ ذکر جس قدردائمی اورکامل ہوگا اسی قدر رکاوٹ مضبوط اورمحکم ہوگی کہ اس میں سے کوئی چیز گزرنہ سکے گی۔ ٭تمام احوال کاحکم ذکر الہٰی کو قائم کرنے کے لئے ہی دیا گیا ہے کیونکہ اصل مقصود ذکر الہٰی ہے جیسا کہ ارشاد رب العلیٰ ہے:۔’’میرے ذکر کے لئے نماز قائم کرو‘‘۔(طہ: ۱۴)
صوفیائے کرام نے اپنے تمام احوال میں ذکر الہٰی پر مواظبت اختیار فرمائی اور ذکر کے فوائد کو محسوس کیا۔ اورپھر یقینی تجربہ کی بنیاد پر اس کے بارے میں گفتگو فرمائی۔ اور دوسرے لوگوںکوبکثرت ذکر کرنے کی نصیحت فرمائی کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ’’تم میںسے کسی کا ایمان کامل نہیں ہوسکتا حتیٰ کہ وہ اپنے بھائی کے لئے بھی وہ چیزپسند کرے جو اپنی ذات کے لئے پسند کرتا ہے۔‘‘(بخاری،مسلم)
تابعین کے امام حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’اللہ جل وعلی کے نزدیک پسندیدہ ترین وہ شخص ہے جو اس کا سب سے زیادہ ذکر کرنے والا اورڈرنے والا ہو۔‘‘(علامہ ابن القیم الجوزیہ : ماخوذ ازحقائق شیخ عبدالقادر عیسیٰ ،ترجمہ:محمد اکرم الازھری)