کرونا وائرس : مقبوضہ وادی میں اور بھارتی ہٹ دھرمی انسانی المیے کو بدترین بناسکتی ہے

کرونا پر ویڈیو سارک کانفرنس میں بھارتی درخواست پر پاکستان کی شرکت‘ کشمیر کے لاک ڈائون پر شرکاء کے ضمیر کو جھنجوڑ ڈالا


جنوبی ایشیائی ممالک میں تعاون کی تنظیم (سارک) کے رکن ممالک کی مشاورت کیلئے ویڈیو کانفرنس گزشتہ شام منعقد ہوئی۔ سارک کی مشاورتی ویڈیو کانفرنس میں تنظیم کے رکن ممالک نے کرونا (کووڈ 19) وباء سے نمٹنے کیلئے صورتحال پر غور کیا۔ بھارت کی درخواست پر پاکستان کی طرف سے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے کانفرنس میں پاکستان کی نمائندگی کی۔ دفتر خارجہ کے بیان کے مطابق ڈاکٹر ظفر مرزا نے پاکستان کی جانب سے اس وباء سے نمٹنے کیلئے کیے جانے والے اقدامات اور حکمت عملی سے کانفرنس کو آگاہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان اول دن سے اس وبا پر قابو پانے اور بچائوکے اقدامات کیلئے پورے عزم کے ساتھ کوشاں ہے۔ اس وبا پر قابو پانے اور اس سے محفوظ رہنے کیلئے پاکستان کی فعال حکمت عملی کو عالمی ادارہ صحت نے بھی نہ صرف تسلیم کیا ہے بلکہ اس کی تعریف بھی کی ہے۔ انہوں نے سارک کو بنیادی پلیٹ فارم بنانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ علاقائی سطح پر اس وباسے نمٹنے کیلئے سارک کو بااختیار بنایا جائے۔ انہوں نے ایگزٹ سکریننگ کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ سارک کے رکن ممالک خطے میں آنے والے مسافروں کے انخلا سے قبل انکی سکریننگ کریں اور اس وباء سے نمٹنے چین کی انتھک کوششوں سے سیکھتے ہوئے طریقہ کار وضع کیا جائے۔ انہوں نے پاکستان کی جانب سے سے قبل ازیں دی جانے والی اس تجویز کا پھر اعادہ کیا کہ پاکستان ممکنہ طور پر جلد از جلد سارک وزرائے صحت کانفرنس کی میزبانی کیلئے تیار ہے۔ وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے کرونا وائرس کے حوالہ سے سارک وزراء صحت کی ویڈیو کانفرنس کے انعقاد پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان بہت پہلے سے کہہ رہا تھا کہ سارک خطے کیلئے ایک اہم پلیٹ فارم ہے اور اس کو خطے کی بہتری کیلئے استعمال میں لایا جانا چاہیے۔ پاکستان کافی عرصہ سے کوشش کر رہا تھا کہ سارک کی سربراہ کانفرنس کا انعقاد اسلام آباد میں ہو سکے لیکن بھارت اور مودی سرکار اس سلسلے میں سب سے بڑی رکاوٹ تھی۔ ہم چاہتے ہیں کہ سارک کو فعال بنایا جائے مگر اس میں بھی رکاوٹ ہندوستان بنتا رہا۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے حوالے سے بھارتی اقدامات اور مودی سرکار کا رویہ آپ کے سامنے ہے لیکن اسکے باوجود آج جب انہوں نے کرونا کے حوالے سے سارک ویڈیو کانفرنس کی پیشکش کی تو پاکستان نے اس عالمی وبا کی نوعیت، خطے کی ضرورت اور انسانی تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا کے ذریعے اس کانفرنس میں شرکت کی۔
بھارت نے سارک کو بھی محض پاکستان سے دشمنی کی بناء پر متنازعہ بنانے کی کوشش کی۔ مودی تو اپنے پیشرو حکمرانوں کے مقابلے میں پاکستان دشمنی میں کئی گام آگے نکل گئے۔ انکی طرف سے پاکستان میں سارک سربراہ کانفرنس کی شدید مخالفت کی بناء پر ہی سربراہ کانفرنس کا انعقاد نہیں ہوسکا ۔ بھارت نے اس بڑے پلیٹ فارم کو بھی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرتے ہوئے اسے بے اثر بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی مگر پاکستان کی طرف سے ہمیشہ مثبت رویوں کا اظہار کیا گیا اور سارک کانفرنس کی افادیت رکن ممالک کو باور کرانے کی کوشش کی۔ بھارت کی کوشش رہی کہ دیگر ممالک کو ساتھ ملا کر پاکستان کو علاقائی اور عالمی تنہائی کا شکار کیا جائے مگر سارک ممالک کے اکثر ممالک گو وہ آبادی و علاقے کے حوالے سے چھوٹے اور مضبوط معیشت کے حامل نہیں ہیں‘ مگر انہوں نے اپنی خودمختاری اور اصولوں پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ ایسے ہی ممالک اور پاکستان کے مثبت رویوں کے باعث بھارت کی سازشیں دم توڑتی رہیں اور سارک تنظیم کا وجود برقرار رہا۔
کرونا وائرس جس کی لپیٹ میں تقریباً ساری دنیا آچکی ہے‘ بھارت کو سارک تنظیم کے پلیٹ فارم سے پاکستان کی ضرورت محسوس ہوئی تو بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو گھٹنے ٹیکنے پڑے‘ وہ جس ملک کو اندر گھس کر مارنے کی دھمکیاں دیتے تھے‘ اسی سے کرونا وائرس پر قابو پانے کیلئے تعاون کے خواستگار ہوئے۔ پاکستان کی طرف سے مودی کے سفاکانہ رویوں سے صرفِ نظر کرتے ہوئے انسانی ہمدردی کے تحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے ویڈیو کانفرنس میں بریفنگ دی۔ اس موقع پر وزیراعظم مودی شرمندہ اور لاجواب ہو کر بیٹھے انگلیاں چٹخاتے رہے۔ انسانی اور غیرانسانی رویوں میں واضح فرق ویڈیو کانفرنس میں نظر آیا۔ پوری دنیا کی طرح مقبوضہ کشمیر میں بھی کرونا وائرس کے کیس سامنے آچکے ہیں مگر کشمیریوں کیلئے سات ماہ سے انکے وطن کو عقوبت خانہ بنادیا گیا۔ ان کو تو عام بیماریوں کیلئے بھی ہسپتالوں تک رسائی حاصل نہیں‘ کرونا وائرس سے کیسے نبردآزما ہوسکیں گے۔ کشمیریوں کو کرفیو کے جبر کے تحت گھروں تک محدود کر دیا گیا ۔ تعلیمی ادارے بند‘ کاروبار ختم‘ پارکس اور سیرگاہیں ویران ہیں۔ قدرت کا کرشمہ دیکھئے آج پوری دنیا کو ایسے حالات کا سامنا ہے۔ دنیا خصوصی طور پر بھارت میں وہ سب کچھ اسی طرح جام اور ساکت پڑا ہے جس طرح مقبوضہ کشمیر میں جبراً بھارت کی طرف سے کیا گیا ہے۔
وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے مودی اور سارک کے دیگر سربراہان مملکت کے ضمیر کو جھنجھوڑ ڈالا۔ اپنے خطاب میں انہوں نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو بلاتعطل طبی سہولیات فراہم کی جائیں۔ کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے اطلاعات کی ترسیل ناگزیر ہے۔ بھارت، مقبوضہ جموں و کشمیر میں مواصلاتی لاک ڈائون ختم کرے۔ کرونا وائرس کی شدت کے پیش نظر مقبوضہ کشمیر میں فوری طور پر کرفیو اٹھانے کے ساتھ تمام پابندیاں ختم ہونی چاہئیں۔ عالمی برادری کو ڈاکٹر ظفر مرزا کی باتوں پر کان دھرنے کی ضرورت ہے۔ مقبوضہ وادی میں پہلے ہی انسانی المیہ بدترین صورت اختیار کر چکا ہے۔ ان حالات میں کشمیریوں کو بے یارومددگار چھوڑ دیا گیا تو سفاکانہ ذہنیت کی انتہاء ہوگی۔ مودی سرکار کو خود ہی احساس ہونا چاہیے۔ اسکی ہٹ دھرمی برقرار رہی اور غیرانسانی ذہنیت نہیں بدلتی تو عالمی برادری کو سخت نوٹس لیتے ہوئے بھارت کو تمام پابندیاں ختم کرنے پر مجبور کرنا ہوگا۔ اسکے ساتھ ساتھ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کو ترجیحاً ’’محصورین کشمیر‘‘ کو کرونا وائرس سے محفوظ رکھنے کے اقدامات کرنا ہونگے۔
ادھر کرونا وائرس کا قومی اور عالمی سطح پر جائزہ لیا جائے تو اسلام آباد‘صوبہ سندھ اور پنجاب میں کرونا وائرس کے مزید20 کیسز کی تصدیق ہوئی ہے جس کے بعد ملک بھر میں متاثرہ افراد کی تعداد 52 تک جاپہنچی ہے۔ صوبہ سندھ میں کرونا وائرس کے کیسز کی تعداد 35 ہوگئی جن میں سے 2 مریض صحت یاب ہو کر گھر جاچکے ہیں۔ لاہور میں بھی کرونا وائرس کا پہلا کیس سامنے آیا ہے۔ وزیر صحت پنجاب ڈاکٹر یاسمین راشد کی سربراہی میں ہونیوالے اجلاس میں صوبے میں دفعہ 144 نافذ کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔بلوچستان حکومت نے 5 محکموں کے علاوہ دیگر تمام صوبائی محکموں کے دفاتر 22 مارچ تک بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ کرونا سے اب تک پوری دنیا میں پانچ ہزار اموات ہوچکی ہیں۔ یہ کوئی بہت بڑی تعداد نہیں‘ کرونا کا خوف زیادہ ہے۔ حادثات اور دیگر بیماریوں میں روزانہ ہزاروں افراد موت کی آغوش میں چلے جاتے ہیں۔ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے دنیا بھر کے لوگوں کو ہدایت کی ہے کہ کرہ ارض پر کورونا وائرس کے مزید پھیلائو کو روکنے کیلئے احتیاطی تدابیر اختیار کریں۔ وائرس کو پھیلنے سے روکنے کے ہر اقدام سے زندگیوں کو بچایا جاسکتا ہے۔ ان کاوشوں سے صحت کی سہولیات بہتر ہوں گی۔
کرونا وائرس سے نجات کیلئے پوری دنیا متحرک اور فعال ہوچکی ہے۔ کل تک ویکسین دستیاب نہیں تاہم کرونا سے متاثرہ مریض صحت مند بھی ہورہے ہیں۔ امریکی صدر ٹرمپ کے مطابق ایک امریکی کمپنی نے اس وائرس سے نجات کی دوا تیار کرلی ہے جو اسی ہفتے مارکیٹ میں دستیاب ہوگی۔ اسکے مریضوں کی پوری دنیا میں تعداد ڈیڑھ لاکھ ہوچکی ہے۔ چین جہاں سے اس وائرس کا آغاز ہوا‘ وہاں اب تک 70 ہزار مریض صحت یاب ہوچکے ہیں۔ پاکستان میں بھی دو ٹھیک ہو کر گھروں کو چلے گئے۔ مقامی اور عالمی سطح پر حفاظتی تدابیر مشتہر ہو رہی ہیں‘ ان پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین کے مطابق صفائی کی طرف توجہ دی جائے۔ ہاتھ باربار دھونے کا کہا جاتا ہے۔ یہ وائرس 25 ڈگری سنٹی گریڈ سے زیادہ درجہ حرارت میں بچ نہیں پاتا۔ چند دنوں میں پاکستان کے اکثر علاقوں میں درجہ حرارت اسی حد کو کراس کر جائیگا تو جس طرح یہ وائرس پھیلتا محسوس ہورہا ہے‘ اس سے کہیں زیادہ تیزی سے معدوم ہو جائیگا۔ حکومت نے تعلیمی اداروں‘ سینما گھروں‘ شادی ہالوں سمیت بہت سے شعبے بند کردیئے ہیں‘ اس سے یقیناً عوام میں پریشانی موجود ہے مگر وائرس سے بچائو اور سدباب کیلئے یہ ضروری اقدام تھا۔ لہٰذا احتیاط کے ساتھ ساتھ صبر بھی ضروری ہے۔

ای پیپر دی نیشن