نیکی رائیگاں نہیں جاتی

ایک عورت جو زیادہ امیر نہیں تھی، شوہر کا انتقال ہو چکا تھا ، پنشن سے گزارا کر رہی تھی۔ ایک دن اس کے گھر کے باہر ایک لڑکا آیاجو سیلز مین تھا۔ عورت کے پاس پیسے نہیں تھے،اس نے لڑکے کو صاف کہا کہ دیکھ بیٹا میرے پاس اتنے پیسے نہیں ہیں کہ میں تمہیں کوئی غلط اْمید نہیں دوں۔ لیکن تم دو منٹ کے لیے میرے گھر میں آؤ۔ عورت اس لڑکے کو کمرے میں بٹھا کر کچن میں جاتی ہے اور دودھ کا ایک گلاس لے کر آتی ہے اور کہتی ہے میں تیری اور کوئی مدد نہیں کر سکتی لیکن یہ دودھ کا گلاس تجھے دے سکتی ہوں۔ پندرہ سولہ سالہ لڑکادودھ پیتا اور شکریہ کہہ کر چلا جاتا ہے۔ اس واقعہ کو پندرہ سال گزر جاتے ہیں۔ ایک دن اچانک یہ عورت کو بے ہوش ہوجاتی ہے ۔ پڑوس کے لوگ انہیں ہسپتال ایڈمٹ کرواتے ہیں ان کی سرجری ہوتی ہے۔ سرجری کی بعد جب وہ ہوش میں آتی ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ اس کی ایک بہت بڑی سرجری ہوئی ہے جس پر لاکھوں کا خرچ آیا ہے۔ یہ سنتے ہی وہ رونے لگتی ہیں اور دعا کرتی ہے کہ یا اللہ تو نے مجھے کیوں بچایا۔اب میں یہ بل کیسے ادا کروں گی۔ آخر اس کے ڈسچارج کا دن آ جاتا ہے۔ وہ بھاری بھاری قدموں سے چلتے ہوئے رسپشن تک آتی ہے۔ آخر کار وہ رسپشن پر آ کر اپنا بل طلب کرتی ہے۔ جب وہ بل لیتی ہے تو اس کی سوچ سے کئی گنا زیادہ اس کا بل بنا ہوتا ہے۔ بل پر موجود رقم پانچ لاکھ روپے کی ہے۔ لیکن حیرت کی بات یہ کہ اس بل کے نیچے لکھا ہوا تھا۔
All ready paid اور ساتھ ہی اس کے نیچے لکھا تھا
Thank you for the glass of the milk
یعنی وہ لڑکا جس کو انہوں نے دودھ کا گلاس دیا تھا وہ بڑا ہو کر ڈاکٹر بن چکا ہے اور اسی کے ہسپتال میں یہ عورت لائی جاتی ہے۔ جب وہ ڈاکٹر اس عورت کو دیکھتا تو اسے یاد آ جاتا ہے کہ یہ وہی عورت ہے جب میرے پاس کچھ نہیں تھا تو انہوں نے مجھے دودھ کا ایک گلاس دیا تھا۔ آج مجھے اس گلاس کا قرض چکانے کا موقع ملا ہے تو کیوں نہ میں وہ قرض چکاؤں۔اسی لیے تو کہتے ہیں جب آپ اچھے کام کرتے ہیں تو وہ سب اچھے کام لوٹ کر آپ کے پاس ضرور آتے ہیں۔ قدرت اتنی مہربان ہے کہ جب ہم کچھ چھوڑتے ہیں تو وہ کئی گنا بڑھ کر ہمارے پاس واپس آتا ہے۔نیکی کا وجود مجسم ہے،نیکی لافانی ہے۔ نیکی چھوٹی ہو یا بڑی کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ ایک دنیا دار آدمی مرنے کے بعد کسی کے خواب میں آیا۔ اس نے قبر کا احوال بتاتے ہوئے کہا کہ کاش وہ زندگی میں صدقہ و خیرات کرتا۔ زندگی دنیاوی حرص اور کنجوسی میں گزار دی، صرف ایک کھجور صدقہ کی۔ قبر میں ایک سانپ سزا دے رہا ہے اس کے منہ میں صدقہ کی گئی کھجور کی گٹھلی ہوتی ہے۔اس لیے اس کے زہر سے محفوظ رہتا ہوں۔ دنیا میں نیکی کا اجر کئی گنا زیادہ ملتا ہے۔ اگلے جہاں اجر و جزا کا کوئی حساب نہیں۔
دنیا میں بل گیٹس جیسے لوگ اربوں روپے کی خیرات کرتے ہیں، پاکستان صدقہ و خیرات کے حوالے سے دنیا میں سب سے آگے ہے اور اگر بھیک مانگنے والوں کی تعداد دیکھی جائے تو اس معاملے میں بھی کسی ملک سے پیچھے نہیں۔ اوپر والا ہاتھ بہر حال برتر ہے۔ ہم جس پوزیشن میں بھی ہیں انفرادی اور مجموعی طور پر کچھ نہ کچھ ضرور کر سکتے ہیں۔ ایک روٹی تو ہر کوئی خیرات کرسکتا ہے اس سے زیادہ کی کوئی حد نہیں۔ چند احباب مل کر تو بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ دس لوگ مل کر دس دس روپے جمع کر کے دوچار بے وسیلہ لوگوں کے پیٹ کا دوزخ بھر سکتے ہیں۔ ہمارے سیاست دان نیکیوں کے سمندر سمیٹ سکتے ہیں ۔ نیک نیتی سے لوگوں میں خوشیاں بانٹنے کی کوشش کریں تو یہی سیاست عبادت قرار پاتی ہے۔ اس دنیا سے بالآخر کوچ کرنا ہے۔ یہ امر راسخ عقیدے کا روپ دھارلے تو وطن عزیز میں غربت پسماندگی اور درماندگی کا نام و نشان بھی نہ رہے۔ ہمارے سیاست دان ملک و قوم کی تقدیر کا مالک بننے کے بعد کاش عوام کے محافظ اور نگہبان بھی بن جاتے۔ ہم مروجہ سیاست میں پڑے بغیر کسی پر بھی تنقید سے گریز کرتے ہوئے حقیقت کادامن نچوڑیں تو کیا سامنے آتا ہے۔ اربوں اور کھربوں ڈالر کے اثاثوں اور وسائل کی چوری، یہ دولت قومی خزانے میں قانون و احتساب کے ذریعے لانا ممکن نہیں۔ البتہ اندر کی آواز پر شاید یہ لوگ ایسی دولت واپس کر دیں۔ خوش گمانی میں فرض کرلیں ایساہو جائے تو ایسی دولت تمام پاکستانیوں پر اوسطاً تقسیم کی جائے تو خوشحالی کا ایک سیل رواں نظر آئے گا۔ اللہ ہمیں انسان اور انسانیت کی قدر اور خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ چند روز سے قویٰ زیادہ ہی مضمحل اور صحت بگڑی ہوئی ہے، احباب سے دعاؤں کی درخواست ہے۔

محمد یاسین وٹو....گردش افلاک

ای پیپر دی نیشن