شہباز گل نے گندے انڈے، سیاہی اور جوتے پھینکنے والے کارکنوں کو معاف جبکہ عدالت نے تینوں ملزموں کو تین روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کر دیا ہے۔ شہباز گل کہتے ہیں کہ کسی غریب اور ناسمجھ کو جیل میں نہیں دیکھنا چاہتا۔ لیگی قیادت کی ایماء پر حملہ کیا گیا۔ اخلاق سے گرے سیاست دان غریب پاکستانیوں بالخصوص خواتین کو استعمال کر رہے ہیں۔ انہوں نے پولیس سے ملزموں کے ساتھ برا سلوک نہ کرنے کی درخواست بھی کی۔ حملے سے شہباز گل کی آنکھ متاثر ہوئی تھی۔
اس واقعے کو دو پہلو ہیں ایک پہلو یہ ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے۔ ہم یہ محاورہ سنتے سنتے بڑے ہوتے ہیں دنیا سے بھی چلے جاتے ہیں لیکن محاورہ اپنی جگہ موجود ہے جب مسلم لیگ نون حکومت میں تھیں اس وقت ان کے وزراء اور رہنماؤں پر ایسے حملے ہوا کرتے تھے تب وہ کہتے تھے کہ سب کچھ پاکستان تحریکِ انصاف کروا رہی ہے آج پی ٹی آئی کو ان حالات کا سامنا ہے تو ان کا الزام مخالف سیاسی جماعت نون لیگ پر ہے۔ بہرحال اگر پی ٹی آئی نے جیسا کیا ویسا بھر رہے ہیں اور اگر آج نون لیگ والے ایسی حرکتیں کر رہے ہیں تو وہ یہ کیوں بھول رہے ہیں کہ مستقبل میں ان کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ہو سکتا ہے کیونکہ وقت کا پہیہ گھومتا رہتا ہے۔
اس واقعے کا دوسرا پہلو نہایت تکلیف دہ ہے گو کہ بہت سادہ بات ہے لیکن بدقسمتی سے کوئی اس طرف سوچنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ کیونکہ بات سادہ ہے اور سچی ہے ہم نہ سادگی پسند ہیں نہ ہم سچے ہیں۔ ہم بناوٹ کے قائل ہیں اور جھوٹ پسند کرتے ہیں اس لئے ہمارے لئے سادہ اور سچی باتوں میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ بات کچھ یوں ہے کہ جس کے پاس جو ہوتا ہے وہ وہی تقسیم کرتا ہے، کوئی ضرورت مند کسی مالدار کے پاس مدد کے لئے جاتا ہے مالدار اپنے مال کا کچھ حصہ اسے دیتا ہے جواب میں مانگنے والا اسے دعائیں دیتا ہے یوں دونوں کے پاس جو کچھ تھا ایک دوسرے کو دے دیا۔ مالدار مال دینے کی طاقت رکھتا تھا اس نے مال دیا، ضرورت مند کے پاس دعائیں تھیں اس نے دعائیں دے دیں۔ اسی طرح کوئی طالب علم کسی استاد کے پاس جاتا ہے کچھ سیکھتا ہے علم حاصل کرتا ہے ترقی کرتا ہے کسی مقام پر پہنچتا ہے اور بڑے عہدے پر پہنچ کر دنیا کے سامنے اپنے استاد کی تعریف کرتا ہے یوں دونوں ایک دوسرے کے لیے کم سے کم جو کر سکتے تھے وہ کر دیا۔ کامیابی کے بعد شاگرد کا یاد رکھنا ہی بڑی بات ہوتی ہے اس نے یاد رکھا، استاد کے پاس تعلیم کا زیور تھا اس نے وہ دے دیا۔ نافرمان اولاد والدین کے ساتھ زیادتی کرتی ہے لیکن والدین بددعا نہیں دیتے چونکہ والدین دعاؤں کے کارخانے ہیں ان کے پاس اولاد کے لیے ہر حال میں دعائیں ہی ہوتی ہیں سو وہ دعا ہی دیتے ہیں۔ جب اس پیمانے پر میں اپنی سیاسی جماعتوں، سیاسی رہنماؤں کو دیکھتا ہوں تو بہت تکلیف ہوتی ہے کہ ہمارے سیاسی رہنماؤں اور سیاسی جماعتوں کے پاس عوام اور سیاسی مخالفین کو دینے کے لیے صرف انڈے، جوتے اور سیاہی ہی بچی ہے اگر یہی کچھ بچا ہے تو پھر اس نظام کا اللہ ہی حافظ ہے کیونکہ جس معاشرے میں دوسروں کو دینے کے لیے صرف جوتے بچ جائیں اور پھولوں کی جگہ انڈے اور جوتے رہ جائیں وہاں آپ دنیا فتح کرنے کے خواب دیکھیں اور تبدیلی کے نعرے لگائیں اور یہ سمجھیں کہ صبح اٹھیں گے تو سب کچھ بدل چکا ہو گا تو ہم حقیقت سے آنکھیں چرا رہے ہیں۔ ایسے معاشروں میں ترقی مشکل ہوتی ہے۔ وہی معاشرے ترقی کرتے ہیں جہاں لوگوں کے پاس ایک دوسرے کو دینے کے لیے تعمیر ہو، اچھے خیالات ہوں، پھول ہوں، مسکراہٹیں ہوں، سچ اور حق کی تعلیم ہو، جہاں سر عام جوتے، انڈے اور منہ پر سیاہی پھینکی جائے اس معاشرے کی پستی کا اندازہ لگانا مشکل نہیں رہتا۔ گذشتہ چند برسوں میں ہونے والے ایسے تمام واقعات ہماری اخلاقی پستی کا پتہ دیتے ہیں بدقسمتی سے یہ سلسلہ رکنے کا نام بھی نہیں لے رہا کیونکہ سیاست دانوں کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ وہ صرف جھوٹ، ظلم، ناانصافی، لوٹ مار، کرپشن، شدت پسندی، عدم برداشت، نفرت اور الزامات ہی دے سکتے ہیں اور یہ تھوک کے حساب سے دے رہے ہیں کاش کہ حکمرانوں کے پاس اتنا وقت بچے کہ وہ سوچ سکیں کہ اس شدت پسندی اور نفرت کو کیسے ختم کرنا ہے، عدم برداشت کو برداشت اور بے رحمی کو رحم میں کیسے بدلنا ہے جب تک ان خطوط پر نہیں سوچا جائے گا پاکستان کے مسائل حل نہیں ہو سکتے کیونکہ صرف دولت مسائل کا حل نہیں ہے۔
شہباز گل پر انڈوں، جوتوں اور سیاہی کے واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ جو لوگوں کو گالیاں دے اسے حفاظت کا بندوبست بھی کرنا چاہیے۔ گوکہ شہباز گل بھی معاشرے کا مثبت کردار نہیں ہیں وہ عوامی سطح پر مقبول بھی نہیں ہیں جس انداز میں وہ روزانہ گفتگو کرتے ہیں وہ بھی قابلِ قبول نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود لوگوں نے بظاہر اس واقعے کی مذمت کی ہے۔ مذمت تو انہوں نے بھی کی ہے جن پر اس واقعے کا الزام ہے۔ بہرحال اس صورتحال میں شہباز گل کو اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرنی چاہیے کیونکہ جس انداز میں وہ روزانہ مخالف سیاسی جماعتوں کو مخاطب کرتے ہیں وہ بھی نامناسب ہے آپ اپنی بات مہذب انداز میں بھی کر سکتے ہیں۔ کیا ترجمان یا معاون ہونے کا مطلب صرف بدتہذیبی ہے۔ شہباز گل کو یاد رکھنا چاہیے کہ ان کے الفاظ قوم کی امانت ہیں وہ اپنے الفاظ کے ذریعے جو بھیج رہے ہیں وہ پلٹ پر ان کے پاس آئے گا۔ وہ قوم کو کیا دے کر جا رہے ہیں۔