گالیاں دینا منع ہے !

پہلے آپ ایک پرانا واقعہ سُن لیں اگلی بات پھر کرتے ہیں۔واقعہ یہ ہے کہ چند برس پہلے ایف ایم 101،ریڈیو پاکستان لاہورپر بطور سنئیر پروڈیوسر کام کرنے کے دوران ایک نئی آرجے میرے پاس اپنے لائیو شو کی تفصیل ڈسکس کرنے آئی تو میرے پوچھنے پر اس نے اپنے شو کا  جو موضوع بتایا وہ یہ تھا ’’اگر آپ کسی سے محبت کرتے ہیں توکیا اُس کا کھلم کھلا اظہار کر دینا چاہیے یا نہیں‘‘۔ جو لوگ ریڈیو پاکستان کی تاریخ سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیںکہ ریڈیو پاکستان ایک ایسا قومی ادارہ ہے جس کی بنیادی ذمہ داریوں میں پاکستان کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور سننے والوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ انہیں ایک صحت مند تفریح کی فراہمی بھی شامل ہے ۔ہمارے ملک میں ریڈیو پاکستان وہ واحد نشریاتی ادارہ ہے جسے ایک مکمل فیملی چینل ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے۔ ایک ایسے ماحول میں جب کہ اکثر نجی ٹی وی اورریڈیو چینلز ریٹنگ کی دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلنے کے چکر میں تمام تر اخلاقی اور صحافتی اقدارکو بے دردی سے پامال کر رہے ہیں۔ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے تمام پروگراموں میں آج بھی اُن سنہری اقدار کی پاسداری کی جاتی ہے جو بطور پاکستانی ہماری تہذیب و ثقافت کا بنیادی حصہ ہیں۔ یہ ایک ایسا ادارہ ہے جہاں کسی بھی سکرپٹ کو نشر کرنے سے پہلے اس کا ایک ایک لفظ کو پوری ذمہ داری کے ساتھ پرکھا جاتا ہے  ان جزئیات کا خیال نہ صرف ریکارڈ کیے جانے والے پروگراموں میں رکھا جاتا ہے بلکہ براہ راست نشریات بھی اسی ذمہ داری اور احتیاط کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں جس کے لئے نئی آوازوں اور پروڈیوسرز کی خاص طور پر تربیت کی جاتی ہے۔ریڈیو پاکستان کے یہی وہ قاعدے ہیں جن کے پیشِ نظر میںنے اپنی آرجے سے کہا کہ ریڈیو پاکستان کی روایات ہمیں ایسے کھلے ڈُھلے موضوعات پر اس انداز میںبولنے کی اجازت نہیں دیتیں۔جواب میں اُس آرجے نے کہا’’ سر آپ منفی انداز میں کیوں سوچ رہے ہیں‘‘۔میں نے عرض کیا کہ بطور براڈکاسٹر یہ بات ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے کہ ہم ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے موضوعات کا ہر پہلو سے جائزہ لیں ۔لہذا ہمیں اپنی ذاتی پسند یا ناپسند سے ہٹ کرہر ممکن احتیاط برتناہوتی ہے کہ ریڈیو پاکستان سے کوئی ایسی گفتگو یا بات نشر نہ ہو جس کا سننے والوں پر کوئی منفی اثر پڑنے کا ایک فیصد بھی امکان ہو۔ ایک ذمہ دار براڈکاسٹر کی حیثیت سے ہمیں یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہوتاہے کہ ہمارے سننے والوں میں معاشرے کے ہر طبقہ فکرسے مختلف عمر،جنس اورسوچ کے حامل پڑھے لکھے، اَن پڑھ یا کم تعلیم یافتہ ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو ریڈیو پاکستان سے نشر ہونے والے کسی بھی پروگرام کی بنیاد پر عین ممکن ہے اپنے اپنے خاندانی و علاقائی پس منظر، تعلیم اور ذہنی استعداد کے مطابق اپنی موجودہ یا آئندہ زندگی کا کوئی اہم فیصلہ یا رخ متعین کریں‘‘۔وہ آر جے کہنے لگیں’’ سر وہ کیسے؟‘‘۔ میں نے کہا’’ فرض کریں آپ اپنے سوچے ہوئے موضوع پر براہ راست پروگرام کرتی ہیں اور ایف ایم ریڈیو کے فارمیٹ کے مطابق اس میں سننے والوں کی آراء بھی شامل کرتی ہیں جس میں ممکن ہے چند آزاد خیال لوگ اس موقف کی تائید کریںکہ اگر آپ کو کسی سے محبت ہے تو اس کا کھلم کھلا اظہار ضرور کرنا چاہیے۔میں نے اپنی بات کو مزید جاری رکھتے ہوئے کہا اس طرح کی بظاہر ایک چھوٹی سی غیر ذمہ دارنہ غلطی سے معاشرے میںوہ بگاڑ پیدا ہو سکتا ہے جس کا بعد میں ازالہ ممکن نہیں ‘‘۔ اس ساری گفتگو کے بعد اس آر جے نے مجھ سے باقاعدہ معذرت کرتے ہوئے نہ صرف شو کے لئے فوری طور پر اپنا موضوع تبدیل کر لیا بلکہ آئندہ کے لئے اپنے طرز فکر میں بھی تبدیلی کا وعدہ کیا۔اس کے بعداگلی بات یہ ہے کہ اب آپ اس واقعہ کو ذہن میں رکھتے ہوئے ہمسایہ ملک بھارت کی سیاسی رہنما سونیا گاندھی کے اس بیان کو یاد کریں جس میں اس نے کہا تھا’’اب ہمیں پاکستان سے جنگ کرنے کی ضرورت نہیں ہے اس لئے کہ ہم نے پاکستان کو ثقافتی محاذ پر فتح کر لیا ہے‘‘۔ ملک میں مادر پدر آزادی کے حامی لبرل طبقوں کے نام نہاد نمائندوں سے میری گزارش ہے کہ آج اتنے برس بعدسونیا گاندھی کے اس بیان کو ذہن میں رکھ کرگذشتہ دنوںعورت مارچ کے نام پر سڑکوں پر مچائے جانے والے غدر اور اس میںبے شرمی پر مبنی کیے جانے والے مطالبات کے ساتھ نجی تعلیمی ادارے میں ایک لڑکی اور لڑکے کی طرف سے ایک دوسرے سے محبت کے’’کھلم کھلا‘‘ اظہار کے حالیہ واقعہ کو ذہن میں لائیں اور اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر ملک کی نظریاتی سرحدوں اور تہذیب و ثقافت کے لئے برسرِ پیکارہمارے جیسے گنوار اور ذہنی مریضوں کو گالیاں دئیے بغیر یہ بتائیں کیا سونیا گاندھی نے غلط کہا تھا۔

ای پیپر دی نیشن