پوری دنیا میں جہاں بھی کوئی طرز حکومت ہے ، نظام پادشاہی ہے یا جمہوری تماشا ، پارلیمانی نظام حکومت ہے یا صدارتی نظام مملکت۔ وہ کسی نہ کسی آئین و قانون اور قاعدے و ضابطے کا ضرور پابند ہے۔ وہ آئین غیر تحریری ہو ، صرف درخشاں روایات پر مشتمل ہو ، سماجی رسوم کا مجموعہ ہو یا رواجوں سے ترتیب دیا گیا ہو۔ یا پھر کتابی صورت میں باقاعدہ کسی مقننہ نے تشکیل دیا ہو وہ یقیناً ایک قابلِ احترام دستاویز کا درجہ رکھتا ہے۔ پاکستان میں بھی کہنے ، سننے اور پڑھنے کی حد تک تو آئین واقعی ایک مقدس دستاویز ہے (باوجود اس کے کہ اس میں 26 ’’پیوند‘‘ لگے ہوئے ہیں)۔خیر ضروریات زمانہ اور دستور دنیا کے تقاضوں کے مطابق آئینی ترامیم کوئی عیب بھی نہیں۔ تاہم آئین کا حرف حرف احترام و تقدس کا متقاضی ہے ، یہ الگ بات ہے کہ ہم اپنی مرضی اور مقصد کی حد تک ہی آئین کا سہارا لیتے ہیں جب تک امید بر نہیں آتی اور مقصد پورا نہیں ہو جاتا تب تک آئین مقدس دستاویز اور قابلِ احترام ہے جب مطلب نکل گیا تو ’’یہ کون سا صحیفہ ہے‘‘ کہہ کرمذاق اڑایا۔ نظام حکومت کی خامیوں ، کوتاہیوں کو درست کرنے کی بجائے آئین کو قصور وار ٹھہرایا جانے لگا۔ گویا
خود بدلتے نہیں ، قرآں کو بدل دیتے ہیں
ہوئے کس درجہ فقیہان حرم بے توفیق
ملکی آئین جہاں ریاست کے ڈھانچے اور اداروں کے اختیارات کا تعین کرتا ہے ، وہیں تمام انتخابات کے طریق کار، عوامی نمائندوں کے لئے شرائط ، منتخب ہونے کے بعد ذمہ داریوں کا تعین ، ریاست و رعایا کے حقوق کا تذکرہ و تحفظ کرتا ہے۔ لیکن ’’والیان حکومت و ریاست‘‘ کو جب ’’خدائی‘‘ ملتی ہے تو پھر اپنے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ مراعات یافتہ طبقات کو مزید نوازنے کے لیے پالیسی سازی کو ہی فرض سمجھ لیا جاتا ہے۔ رعایا کے حقوق اور حکومت و ریاست کی ذمہ داریوں کے بارے میں آئین جتنی بھی چیخ و پکار کرتا رہے ، ارباب اختیارات و صاحبان اقتدار کان دھرنے کوتیارنہیں ہوتے۔ سیاسی جماعتوں کے منشور، عوامی نمائندوں کے نعرے جیت کے بوجھ تلے دب کر خاموش ہو جاتے ہیں ، پھر جب بھی آئین سازی ہوتی ہے یا قوانین بنائے جاتے ہیں۔ رعایا نہیں ، شاہوں کے حقوق کا خیال رکھا جاتا ہے ، عوام نہیں ، امراء کوتحفظ دیا جاتا ہے۔ آفرین ہے حکومت پر۔ جو ’’مستقل مزاجی‘‘ سے ریاست مدینہ جیسا نظام لانے کے مسلسل دعوے کیے جا رہی ہے اور ارباب اختیارات لمحہ بھر کے لیے بھی چونکتے ہیں نہ شرماتے ہیں۔ اپنے شبہات بھرے ارادوں کو پاک صاف دکھانے کے لیے بہت کچھ کہہ جاتے ہیں کہ ’’عوام تھوڑا صبر کریں ، ابھی تو ڈھائی سال ہوئے ہیں ، ریاست مدینہ بننے میں تو 23 برس لگ گئے تھے۔‘‘ حالانکہ مدینہ جیسی عظیم ترین فلاحی ریاست کے کوئی ’’اسرار و رموز‘‘ نہیں جو صاحبان اقتدار و ارباب اختیارات کو سمجھ نہ آئیں بلکہ بانی ریاست مدینہ آقا کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دو خلفاء کے حلف اٹھانے کے موقع پر کہے گئے دو ، دو جملوں میں ہی رعایا کے حقوق کا مکمل تحفظ اور حکمرانوں کی مکمل ذمہ داریوں کا تعین ہوتا ہے۔ سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے فلاحی ریاست کے پہلے خلیفہ کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے موقع پر فرمایا تھاکہ ’’میری تنخواہ ایک مزدور کے برابر کر دی جائے ، اگر اتنی تنخواہ میں میرا گزارہ نہ ہو تو پھر مزدورکی تنخواہ بڑھا دی جائے۔ ‘‘ چند الفاظ میں ہی سیدنا ابوبکر صدیق ؓ نے رعایا کے حقوق بتادئیے۔ دوسری طرف سیدنا عمر فاروقؓ کے تاریخ میں امر ہو جانے والے ایک جملے نے ہی ریاست اور حکمرانوں کی ذمہ داریوں کا تعین کر دیا کہ ’’اگر فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مر گیا تو عمرؓ سے باز پرس ہو گی۔‘‘ اب بھی حکمرانوں کو ذمہ داریوں کا احساس نہ ہو، عوامی حقوق کا خیال نہ ہو۔ حلف وفاداری کا پاس نہ ہو تو پھر لمبے چوڑے قانون بنانے ، آئین سازی کرنے ، ضرورت پڑنے پرمقدس دستاویز کا ’’اعزاز‘‘ عطا کرنے اور مطلب نکل جانے پر اٹھا کر پھینکنے دینے سے تو فلاحی ریاستیں تشکیل نہیں پاتیں۔ ہمارے ہاں چونکہ حکومت اور اپوزیشن دونوں ہی طبقہ خواص اور ایلیٹ کلاس ہوتے ہیں۔ اس لیے آئین اپنے پورے تقدس و احترام کے تقاضوں اور قانون اپنی بالادستی کے باوجود امراء اور بالادست قوتوں کے مفادات کا تحفظ اور طواف کرتا نظر آتا ہے۔ اس میں عوام کے مفادات کا تحفظ ہے نہ ان کو قوم بنانے کے لئے کوئی تدبیر و طریقہ ہے۔ یقینا تیسری دنیاکے باسیوں کے لئے یہی دستور ہوتا ہے کہ
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ ناقص ہے کتاب
جو سکھاتی نہیں مومن کوغلامی کے طریق
ان غلاموں کا یہ مسلک ہے کہ …
Mar 17, 2021