’’ارشاد نامہ‘‘ اور ظفر علی شاہ کیس 

سابق چیف جسٹس پاکستان ایک سچے اور حق گو انسان ہیں۔ ساری زندگی راہ راست پر چل کر گزاری ہے۔ وہ کسی مصلحت کا شکار نہیں ہوئے، بھلے انھیں سچ کی پاداش میں زندگی میں نقصان ہی کیوں نہ برداشت کرناپڑے۔ انھیں سچ سے پیار ہے۔ 
بلھے شاہ کی کافی ہے:۔؎ 
سچ آکھ میاں کیوں ڈرنا ایں 
اس سچ پچھے توں ترنا ایں 
سچ سدا آبادی کرنا ایں 
سچ وست اچنبھا آئی اے 
مطلب یہ کہ سچ کو بے خوف ہو کر بیان کیا جائے۔ کیوں کہ نجات اسی سچ کے اعلان میں مضمر ہے۔ ’’ارشاد نامہ‘‘ چیف جسٹس (ر) ارشاد حسن خان کی خود نوشت ہے جو حال ہی میں شائع ہوئی۔ اس خود نوشت میں ایک عہد کی فکری، سیاسی، عدالتی اور ذاتی سرگرمیوں کی روداد ہے۔ ان کی ہر بات کے پیچھے معنی کا ایک دریا خاموشی سے بہہ رہاہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہر فرد کو چند قابلیتیں اور صلاحیتیں عطا کی ہیں۔ جسٹس ارشاد حسن خان  نے ان صلاحیتوں کو جانا اور اس کو ابھارا۔ آپ کی ہر قابلیت اور صلاحیت اللہ کی دین ہے۔ 
زندگی گزارنے کے لیے زندگی کا مقصد متعین کرلو، مقصد کے بغیر زندگی بے معنی ہے۔ اس قول کو مدنظر رکھتے ھوئے جسٹس ارشاد حسن خان نے بامقصد زندگی گزاری اور گزار رہے ہیں۔ انھوں نے عدلیہ سے وابستگی کے دوران بے شمار مقدمات کی سماعت کی اور فیصلے دئیے۔ ان میں ظفر علی شاہ کیس ملکی تاریخ میں اہم تصور کیا جاتا ہے۔ ظفر علی شاہ کیس کا فیصلہ تاریخ میں یاد رہ جانے والا فیصلہ ہے۔ اس کیس کے بار ے میں موشگافیاں کرنے کا حق تو قانون دانوں کو حاصل ہے لیکن ایک بات بلاشبہ جسٹس ارشاد حسن خان کے کریڈٹ میں جاتی ہے کہ انھوں نے جو فیصلہ کیا، بغیر کسی دباؤ کے کیا۔ اپنی سوچ کی پختگی اور سچائی پر ڈٹے رہے۔ صفحہ 163 پر جسٹس ارشاد حسن خان لکھتے ہیں ’’ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں محمود علی قصوری وزیر قانون ہونے کے علاوہ بار کے لیڈر بھی تھے۔ ان کے اعزاز میں وکلاء نے فلیٹیز ہوٹل میں تقریب کا اہتمام کیا اور جسٹس نسیم حسن شاہ  اس زمانے میں ہائی کورٹ کے جج تھے۔ اپنی حسِ مزاح، ہمدرد طبیعت، پیار محبت اور خدا خوفی کی وجہ سے انھیں بڑی شہرت حاصل تھی۔ ہمارے استادوں میں بھی شامل تھے اور دوستوں میں بھی‘‘ 
جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ (مرحوم) کے بارے میں پڑھنے کے بعد مجھے یاد آیا کہ سپریم کورٹ میں جب ذوالفقار علی بھٹو کی اپیل دائر ہوئی تو بنچ میں جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ بھی شامل تھے۔ جنھوں نے بھٹو کی پھانسی کی توثیق کی۔ جسٹس نسیم حسن شاہ سے پوچھا گیا آپ کی ذاتی رائے یہ تھی کہ بھٹو کی سزا میں کمی ہو سکتی ہے اور اس سلسلے میں ان کا کیس بڑا مضبوط تھا؟ ان کا جواب تھا۔ مجھے بعد میں اس کا افسوس رہا۔ بھٹو کو شک کا فائدہ ملنا چاہیئے تھا۔ کم از کم ان کی جان تو بچ جاتی۔ میرے خیال میں اس میں تھوڑی سی ہماری کمزوری تھی اور کچھ یحییٰ بختیار کی بھی تھی کہ اس نے ایک قسم کا ہمیں ناراض کر دیا۔ مطلب یہ کہ قانون کے مطابق فیصلہ ہونا چاہیئے، جذبات پر نہیں ہونا چاہئیے۔ مگر جسٹس ارشاد حسن خان صاحب کو ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کے بعد کسی قسم کا افسوس یا ندامت کا احساس نہیں ہوا۔ اس کیس کو جمہوریت کی بحالی قرار دیا گیا۔ جنرل مشرف حکومت انتخابات سے فرار چاہتی تھی لیکن ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کی بدولت انھیں انتخابات کرانے پڑے۔ آئین مکمل طور پر بحال ہوا اور اکتوبر 2002ء میں ایک جمہوری سفر کا آغازہوا جو آج بھی جاری ہے۔ 
جسٹس ارشاد حسن خان ’’چند معروضات‘‘ میں لکھتے ہیں ’’ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کو میری زندگی کے حالات کے ساتھ رکھ کر پڑھیں تو کوئی راست فکر یہ ماننے کو تیار نہیں ہو گا کہ یہ ’’فیصلہ‘‘ کسی دنیاوی لالچ، طمع یاد دباؤ کے تحت کیا گیا ہو گا۔ جو شخص جنرل ضیاء الحق اور ان کی بیورو کریسی سے ٹکرا سکتا ہو۔ جو جنرل پرویز مشرف کو کھری کھری سنا دیتا ہو، اس کے کسی فیصلے کو ہدف تنقید بنانا بدگمانی نہیں تو اور کیا ہے؟‘‘ 
’’ارشاد نامہ‘‘ کے ابتدا میں ماہرین آئین و قانون اور صاحبان علم و دانش کی آراء  شائع کی گئی ہیں۔ ان میں ایس ایم ظفر، وسیم سجاد، اعتزاز احسن، مخدوم علی خان، قیوم نظامی، حفیظ الرحمن قریشی اور سعید آسی شامل ہیں۔ ان تمام احباب نے ظفر علی شاہ کیس کے فیصلے کو سراہا ہے۔ 
جسٹس ارشاد حسن خان نے سچائی کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا۔ میکسم گورکی نے ’’سچائی‘‘ کے بارے میں لکھا ’’انسان کو چاہیئے کہ اپنے لیے ’’سچائی‘‘ خود تلاش کرے، اپنی سچائی خود ڈھونڈے، جس سے اس کا دل مطمئن ہو۔ تم چیزوں کو ویسے دیکھو، جیسی کہ وہ ہیں‘‘ جسٹس ارشاد حسن خان کا دل اور ضمیر مطمئن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ماشاء اللہ 84 برس کی عمر میں بھی اپنے آپ کو جوان محسوس کرتے ہیں اور پُرسکون زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اب بھی ان کا زیادہ وقت کتابیں پڑھنے میں گزرتا ہے۔ زندگی کو اچھے طریقے سے بسر کرنے کے لیے اچھی کتابیں پڑھنا ضروری ہے ان اچھی کتابوں میں ’’ارشاد نامہ‘‘ بھی شامل ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن