ناکام و ناتمام کرکٹ 

بعض تو کارتوس بھی نہیں ہوتے۔ انہیں ’’شُرشُریاں‘‘ کہنا زیادہ موزوں ہو گا۔ اسی قسم کے کھلاڑیوں کو خان صاحب نے ایک مرتبہ ’’ریلوکٹے‘‘ کہا تھا۔ وہ تو اس بوجوہ منقار زیر پر ہیں لیکن نقاد کی زبان کو تو نہیں روکا جا سکتا۔ سادہ لوح عوام کو بتایا جاتا ہے۔ انگلستان سے مسٹر ٹام آتے ہیں۔ آسٹریلیا نے ’’ڈک‘‘ بھیجا ہے۔ ویسٹ انڈیز سے ’’ہیری‘‘ نے قدم رنجاں فرمایا ہے…پھر ان کی سکیورٹی پر ہزارہا اہلکارتعینات کردیئے جاتے ہیں۔ بڑے فخر سے اعلان کیا جاتا ہے ’’اتنی سیکورٹی، اس قدر پروٹوکول تو صدرمملکت کو بھی نہیں دیا جاتا۔ شہر کی تمام اہم شاہرائیں بندکر دی جاتی ہیں۔ گھنٹوں ٹریفک رکی رہتی ہے۔ شہری ’’کھجل خوار‘‘ ہوتے ہیں۔ بچے سکولوں میں تاخیر سے پہنچتے ہیں۔ مریض ایمبولینسوں میں بلبلاتے ہیں۔ چارسو کرفیو کا سماں ہوتا ہے جن ہوٹل میں یہ ٹھہرتے ہیں اس پر قلعے کا گمان ہوتا ہے۔ کیا دُنیا کے کسی ملک میںایسا ہوتاہے؟
۴۔ اس کی بادی النظر میں ایک ہی وجہ ہے! کرکٹ کے ارباب اختیار کو صرف اپنے حلوے مانڈوں سے غرض ہوتی ہے۔ ’’کوئی مرے، کوئی جیوے سُقرا گھول بتاشے پیوے‘‘ کرکٹ بورڈ کی چیئرمینی ایک COVETED POST پوسٹ ہے۔ وفاقی وزیر سے کہیں بڑی۔ بڑے سے بڑا وزیر بھی اس کی آرزو کرتا ہے ، میں جب کمشنر تھا تو ایک کورکمانڈر صاحب کی شدید خواہش تھی کہ انہیں اس منصب جلیلہ پر فائز کردیا جائے خود بھی کرکٹ کھیلتے تھے۔ اکثر کہتے شاہ صاحب دعا کریں یہ گوہر مراد ہاتھ آجائے مجھ جیسے گنہگار انسان سے دعا کرانا صرف ان کے شوق اور کھیل سے وابستگی کی غمازی کرتا تھا۔ 
۵۔ غلطیاں انسانوں سے ہوتی رہتی ہیں لیکن جب بار بار غلط اقدام اٹھائے جائیں تو پھر تنقید کے لیے بھی تیار رہنا چاہئے۔ پہلا PSL بھی ناقص پلاننگ اور کرونا کی وجہ سے ناکام ہوا۔ اب کے بہت سوچ سمجھ کے قدم اٹھانا چاہئے تھا۔ ملک و قوم کا وقت اور پیسہ برباد ہوا ہے۔ یہ جو میڈیا کے ذریعے (HYPECREATE) کہا گیا تھا، اس سے آتش شوق پر بھی ٹنوں کے حساب سے پانی پڑ گیا ہے عین بیچ منجھدار میں کرکٹ کی کشتی ڈبو دی گئی ہے۔ وجہ…؟ کئی کھلاڑیوںکو موذی مرض چمٹ گیا تھا۔ 
حفاظتی تدابیر ناقص تھیں۔ سمجھ نہیں آتا کہ وہ ویکسین جو اب لگائی جا رہی ہے  اس کواس کو اس وقت کیوں استعمال نہیںکیا گیا جب کھلاڑیوں کا ورد ہوا تھا۔ الگ سے ہوٹل کا بندوبست نہیں کیا گیا۔ بے شک ہوٹل چھوٹا ہوتا لیکن اگ تھلگ ہوتا۔ عوام کوکھیل کے میدان میں لانا بھی محل نظر ہے۔ 
ایک طرف تو حکومت اپوزیشن کوجلسے کرنے پر مطعون کر رہی ہے (جو درست بات ہے) لیکن دوسری طرف لوگوں کا جمِ غفیر میدانوں میں لایا جا رہا ہے۔ یہ بھی تو ایک طرح کا جلسہ ہوتا ہے۔ 
۶۔ اب جب ویکسین کا ذکر ہوا ہے تو چند گزارشات ارباب اختیار سے بھی کی جا سکتی ہیں۔ ٹیکے لگانے کا عمل نہایت سست روی کا شکار ہے۔ تین ماہ کے عرصے میں 5 لاکھ ٹیکے نہیں لگائے جا سکے۔ 
اس رفتار سے تو برس ہا برس لگ جائیں گے۔ ویکسین کی خرید کا مناسب اورمعقول بندوبست نہیں کیا گیا۔ منشی پریم چند کے کردار ہرکھو (جس کا ذکر میں نے پچھلے کالم میں کیا تھا) کی طرح ہرچیز تقدیر پر چھوڑ دی گئی ہے۔ ’’پراپر پلاننگ‘‘ کا فقدان ہے۔ لوگوں کو اپوزیشن اور حکومت کی رسہ کشی سے کوئی غرض نہیں ہے۔ جب جان لیوا بیماری درپر دستک دے رہی ہو تو لوگ اس قسم کی فضولیات کے متحمل نہیں ہو سکتے!
پاک فوج نے اپنے حصے کی ویکسین لوگوں کو دیکر ایک عمدہ مثال قائم کی ہے لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ ہیلتھ ورکرز کے بعد سب سے پہلے جوانوں کو ٹیکے لگنے چاہئیں۔ یہ بارڈر پر ایک مکار دشمن سے نبرد آزما ہیں۔ اندرون ملک بھی دہشت گردوں کا مقابلہ کررہے ہیں۔ قدرتی آفات کی صورت میں بھی ان کی صلاحیتوں سے فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ ان سب امور کی انجام دہی کے لیے ضروری ہے کہ جوان اور آفیسر تندرست و توانا ہوں…
۷۔ خیرات میں جو ملنا ہے ، سو ملنا ہے ۔ ویکسین کی خریداری کے لیے ایک سنجیدہ کوشش کرنی چاہئے۔ حکومت کو اگر پانچ برس پورے کرنے ہیں اور اگلا الیکشن کامیابی کے لیے لڑنا ہے تو پھراس مایوسی کو دور کرنا ضروری ہے جو چارسو کوبکُو پھیلنے کا اندیشہ ہے۔ 

ای پیپر دی نیشن