عورت مارچ اور آزادیٔ اظہار

گزشتہ سال کی طرح امسال بھی خواتین کے حقوق کا عالمی دن آیا۔مختلف شہروں میں خواتین نے ریلیاں نکالیں ۔ان ریلیوں میں زیادہ تر اپر مڈل کلاس کی خواتین تھیں جو معاشرے میں خواتین پر ہونے والے ظلم و جبر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہی تھیں ۔ احتجاج کا طریقہ مختلف جگہوں پر مختلف تھا۔ کہیں بینر لہرائے گئے تو کہیں نعرے لگائے گئے۔ کہیں فقرے کسے گئے تو کہیں پدر شاہی نظام کو للکارا گیا۔ آزادیٔ نسواں کی حامی خواتین نے ایک منشور کی صورت میں اپنے مطالبات پیش کیے۔ہمارے ہاں کا معاشرتی افتراق و انتشار ان ریلیوں میں بھی دیکھنے میں آیا ۔ایک طرف عورت مارچ ہورہا تھا تو دوسری طرف رد عمل کے طور پر یوم ِحیا منایا جارہا تھا ۔ دونوں طرف کی خواتین کے افکار و نظریات میں بعد المشرقین تھا اور اوپر سے عدم برداشت مستزاد!نظریات میں اختلاف ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں اور نہ ہی ناپسندیدہ ہے ۔اختلاف رائے معاشروں کا حسن ہوتا ہے لیکن اختلاف رائے یا آزادیٔ اظہار کے نام پر انتہا پسندانہ رویوں کا جنم لینا لائق تشویش بھی ہے اور قابلِ گرفت بھی۔
پاکستان کا آئین اپنے شہریوں کو آزادیٔ اظہارکا حق عطا کرتا ہے ۔آئین کا آرٹیکل 16 شہریوں کو پر امن  اجتماع کی اجازت دیتا ہے ۔ اسی طرح اپنے افکار و نظریات کی ترویج کے لیے آرٹیکل17 میں انجمن سازی کی آزادی دی گئی ہے اور آرٹیکل 19 کے تحت ہر شہری کو تقریر اور اظہار خیال کی آزادی کا حق بھی دیا گیا ہے ۔ لیکن آرٹیکل 19 میں ہی بالصراحت یہ بھی بتادیا گیا ہے کہ آزادیٔ اظہار کے نام پر اسلام کی عظمت ، امن عامہ یا تہذیب و اخلاق کو تختۂ مشق نہیں بنایا جا سکتا ۔ اس شق کے حوالے علمی حلقوں میں اکثر یہ با ت زیر بحث رہتی ہے کہ آیا آزادیٔ اظہار کو یقینی بنایا گیا ہے یا اس کے پر کاٹے گئے ہیں ؟  میری فہم کے مطابق آئین پاکستان میں آزادیٔ اظہار کو حدود و قیود کے تابع کیاگیا ہے جو کہ بالکل مناسب اور فطری تقاضوں کے عین مطابق ہے ۔ 
اگر آزادیٔ اظہار کی حدود و قیود کا تعین نہ کیا جائے تو اس کا ناجائز استعمال یقینی ہے۔ جائز اور ناجائز کی بحث میں الجھے بغیر صرف یہ سمجھ لیجیے کہ آزادی اس وقت تک آزادی ہے جب قانونی اور اخلاقی دائر ے میں رہے ۔ اگر آزادی کے نام پر دوسروں کی آزادی کا احترام نہ کیا جائے تو یہ محض بربادی ہوگی ۔ اپنے افکار و نظریات کی ترویج ہر شہری کا حق ہے لیکن اس اظہار رائے کے نام پر دوسروں کی دل شکنی کرنا، ان کے عقائد و نظریات کو ہدفِ تنقید بنانا، جمہور کی سوچ کا تمسخر اڑانا، جمہور کی روایات پر طنز کے نشتر برسانا کسی طور بھی پسندیدہ اور لائقِ ستائش نہیں ہے ۔ہر طرح کی آزادی بلاشبہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن اس آزادی کا درست استعمال بھی عقل وفہم کا متقاضی ہے۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اپنی پسند کے کپڑے پہننا ہر مردوزن کا بنیادی حق ہے لیکن آزادی کے نام پر برہنہ ہوجاناہرگز آزادی نہیں بلکہ عریانی اور بربادی ہے۔
پاکستان ایک جمہوری اور اسلامی مُلک ہے ۔ یہاں جمہور کی اپنی روایات ہیں جن کی گہری جڑیں تاریخ اور مذہب میں پیوست ہیں ۔ ایک ایسی ہی روایت ہمارا خاندانی نظام ہے جو کہ ایک مکمل ادارہ ہے۔ اس ادارے میں ہر فرد کا کردار متعین ہے ۔ یہ خاندانی نظام ایک حسین گلدستہ ہے جس میں ہر پھول کی اپنی ایک خوشبو ہے۔ مرد کو عورت کی عزت و عصمت کا محافظ بنایا گیا ہے تو عورت کو حسن و پاکیزگی کا پیکر قرار دیا گیاہے ۔بیٹے کو آنکھوں کا نور قرار دیا گیا ہے تو بیٹی کو رحمت الٰہی کا پر تو سمجھاگیا ہے ۔ باپ کی رضا کو رب کی رضا قرار دیا گیا ہے تو ماں کے قدموں تلے جنت کا مُژدۂ جاں فزا سنایاگیا ہے۔ ایک خاندانی نظام میں تمام رشتے باہم جڑے ہوتے ہیں جن کے مضبوط تعلق کی بنیاد محض محبت اور اخلاص پر استوار ہوتی ہے۔ بھائی اور بہن کی محبت میں کوئی لالچ کارفرما نہیں ہوتا۔ والدین کی خدمت کسی مجبوری یا لالچ کے عوض نہیں کی جاتی ۔ میاں اور بیوی کا باہمی تعلق مادیت سے کوسوں پرے ہوتا ہے ۔ یہ ہمارے خاندانی نظام کی وہ خوبیاں ہیں جن پر یہ مضبوط عمارت استوار ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین کا استحصال کیا جا تاہے۔انھیں بہت سے مظالم سہنا پڑتے ہیں۔ بچیوں کی تعلیم کا خاطرخواہ انتظام نہیں کیاجاتا۔ اکثر و بیشتر ایسے واقعات سننے کو ملتے ہیں جن سے خواتین کے ساتھ ہونے والی نا انصافی پر دل دہل جاتا ہے ۔لیکن ان ناانصافیوں اور محرومیوں کا دانشمندانہ تجزیہ کرنے کے بجائے رد عمل کے طور پر مادر پدر آزادی کا تقاضابھی کوئی پسندیدہ امر نہیں ہے ۔ عورت مارچ میں شریک بہت سی خواتین آزادی کے نام پر بنیادی اسلامی ، تہذیبی اور جمہوری روایات کو للکار رہی تھیں ۔ انقلابی بننے کے زُعم میں ناپختہ ذہن کی بہت سی بچیاں ایسے ہوشربا نعرے لگارہی تھیں جن سے نفرت اور غلاظت ٹپک رہی تھی ۔ غصے، شر، زہر ، افتراق و انتشار ، انتقامی رویے اور تخریبی سوچ کا پیکر یہ عشوہ طراز آنٹیاںنہ تو ہمارے معاشرے کی نمائندہ ہیں اور نہ ہی ہماری تہذیبی روایات سے آشنا ۔ مادر پدر آزادی کی تلاش میں سرگرداں یہ خواتین در اصل مخصوص ایجنڈے کی آلۂ کار ہیں جو ہمارے معاشرے سے حیا اور پاکیزگی کاخاتمہ چاہتی ہیں ۔ ان خواتین کے نعروں سے واضح ہوتا ہے کہ یہ خداتعالیٰ کے احکامات، رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات اور اسلامی اقدار کا مکمل خاتمہ چاہتی ہیں جو کہ پاکستان کے عوام کے لیے کسی صورت بھی قابل قبول نہیں ہوسکتا ۔ 
کسی بھی تعمیری تحریک میں ہمیشہ مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے نہ کہ مسائل کو اچھال کر نئے مسائل پیدا کیے جاتے ہیں ۔ عورت مارچ  میں خواتین کے حقوق کے نام پر جو نعرے لگائے گئے اور واضح طور پر مذہب کی مسلمہ روایات سے بغاوت کااظہار کر کے جمہور کی دل شکنی کی گئی جوکسی طور بھی تعمیری رویہ نہیں ہے ۔ تقسیم در تقسیم معاشرے میں نئی تقسیموں کی بنیاد کون سی معاشرتی خدمت ہے؟ جہاں تک خواتین کے حقوق کی بات ہے تو اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ ہمارے ہاں عورتوں کا استحصال ہوتا ہے ۔لیکن استحصال تو بچوں کا بھی ہوتا ہے۔ مزدوروں کابھی ہوتا ہے۔ قیدیوں کو بھی ان کے حقوق نہیں ملتے ۔ دیکھاجائے تو ہر طبقۂ فکر کی کوئی نہ محرومیاں ضرور ہیں ۔ کیا ان محرومیوں کا یہ مطلب ہے کہ چوکوں چوراہوں میں کھڑے ہوکر علی الاعلان تہذیب، روایت اور پاکیزہ  استعاروں پر تبرہ بازی کی جائے؟یقینا یہ رویہ ایک نفسیاتی عارضہ تو ہوسکتا ہے، درپیش مسائل کا حل ہرگز نہیں۔ 
عورتوں پر مظالم ایک دلخراش حقیقت اور ہمارے معاشرے کا رستاہوا ناسور ہیں ۔صدیوں سے عورت جبر ناروا کا سامنا کرتی آئی ہے اور آج بھی ظلم کی چھاؤں میں دم لینے پر مجبور ہے۔ آئے روز ایسے واقعات اخبارات کی زینت بنتے ہیں کہ انسانیت شرماکے رہ جاتی ہے ۔ آج کی عورت کو پیش آمدہ مسائل کے محرکات واسباب کا تفصیلی جائزہ لے کر ان کا ٹھوس قانونی ، سماجی اور اخلاقی حل تلاش کرنے کی ضرورت ہے ۔عورت مارچ میں نہ تو عورتوں کے حقیقی مسائل پر بات ہوتی ہے اور نہ ہی ان مسائل کا کوئی ٹھوس حل پیش کیا جاتا ہے۔آزادیٔ اظہار کے نام پر نسلِ نو سے تہذیب و اخلاق اور فہم و ادراک چھین کر ان میں رد عمل اور گالی گلوچ کا کلچرمتعارف کرانے سے سے مسائل حل ہونے کے بجائے دوچند ہوجائیں گے ۔ 
ہو فکر اگر خام تو آزادیٔ افکار 
انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ

ای پیپر دی نیشن