ریاستی اداروں کے ساتھ ٹکرائو کی پالیسی جمہوریت کے لئے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے 

حکمران جماعت کا نئے الیکشن کمشن کی تشکیل کا مطالبہ اور اپوزیشن جماعتوں کی نیب پر تنقید 
حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف نے الیکشن کمشن پر سینٹ انتخابات میں فرائض کی انجام دہی میں ناکامی کا الزام عائد کرتے ہوئے الیکشن کمشن سے مستعفی ہونے اور نئے الیکشن کمشن کے قیام کا مطالبہ کر دیا ہے۔ اس سلسلہ میں وفاقی وزراء شبلی فراز ، شفقت محمود اور فواد چودھری نے گزشتہ روز مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمشن ناکام ہو چکا ہے اور نیوٹرل امپائر کا کردار ادا نہیں کر رہا۔ وزیراعظم سینٹ انتخابات میں اوپن بیلٹ چاہتے تھے، الیکشن کمشن نے ہماری تجاویز مسترد کر دیں ۔ انہوں نے کہا کہ چیف الیکشن کمشنر کے خلاف ریفرنس دائر نہیں کیا جائے گا۔ عام انتخابات میں ابھی اڑھائی سال کا وقفہ ہے اس لئے نیا الیکشن کمشن تشکیل دیا جا سکتا ہے۔ 
دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں مسلم لیگ (ن) پیپلز پارٹی اور این پی کے قائدین نئے الیکشن کمشن کی تشکیل اور الیکشن کمشن کے مستعفی ہونے کے حکومتی مطالبہ کو مسترد کرتے ہوئے اسے مضحکہ خیز قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ یہ مطالبہ الیکشن کمشن پر دبائو ڈالنے کا حکومتی حربہ ہے۔ مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر مریم نواز، شاہد خاقان عباسی ، مریم اورنگ زیب اور پیپلز پارٹی کے نیر بخاری اور مصطفی نواز کھوکھر نے اپنی الگ الگ میڈیا ٹاک میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر عوام نے حکمران پارٹی کو ووٹ نہیں دیا تو اس میں الیکشن کمشن کا کیا قصور ، ان کے بقول استعفیٰ تو حلقہ این اے 75 کے ضمنی انتخاب میں پریذائیڈنگ افسروں کو اغواء کرنے والوں کو دینا چاہئے۔ 
ہماری سیاست میں کسی کی مرضی اور منشاء کے مطابق کام نہ کرنے والے ریاستی اداروں کو رگیدنے کی روایت بہت پرانی ہے جو متعلقہ ریاستی اداروں کے آئینی طور پر خودمختار کئے جانے کے باوجود برقرار ہے اور سب سے افسوسناک صورتحال یہ ہے کہ حکمران طبقات کی جانب سے بھی اپنی سوچ کے مخالف کام کرنے والے ریاستی اداروں کو ہدف تنقید بنانا وطیرہ بنا لیا گیا ہے۔ اس حوالے سے ملک کی اعلیٰ عدلیہ ، الیکشن کمشن اور نیب بطور خاص اس وقت حکومتی یا اپوزیشن جماعتوں کی تنقید کی زد میں آتے ہیں جب ان کے کسی معاملہ میں کوئی فیصلہ ان کی توقعات کے برعکس آتا ہے۔ پیپلز پارٹی اپنے ادوار میں بالخصوص عدلیہ کو لتاڑتی رہی جسے محترمہ بے نظیر بھٹو نے ’’چمک‘‘ کا نام دیا جبکہ بیگم نصرت بھٹو نے ’’کنگرو کورٹس‘‘ کی اصطلاح استعمال کی۔ میاں نواز شریف کے ادوار حکومت میں بھی یہی روش اختیار کئے رکھی گئی اور 18 ویں آئینی ترمیم کے بعد نیب کو خودمختاری ملی جس کے چیئرمین کا تقرر حکومت اور اپوزیشن کی باہمی رضامندی سے عمل میں آنا طے پایا تو میاں نواز شریف کے دور میں نئے آئینی طریقہ کار کے تخت تقرر پانے والے چیئرمین نیب قمر الزمان کی بھی وزیراعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب کے ہاتھوں کمبختی آتی رہی اور انہیں مختلف القابات سے نوازا جاتارہا۔ اسی طرح 2013 ء کے نگران دور حکومت میں آئینی طور پر خودمختار ہونے والے الیکشن کمشن بالخصوص چیف الیکشن کمشنر فخر الدین جی ابراہیم کو پی ٹی آئی کی کڑی تنقید کا نشانہ بننا پڑا۔ اس تنقید کا سلسلہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت تشکیل پانے کے بعد بھی جاری رہا تو فخرالدین جی ابراہیم احتجاجاً اپنے منصب سے مستعفی ہو گئے جس کے بعد کئی نامور شخصیات چیف الیکشن کمشنر کا منصب قبول کرنے سے ہچکچاتی رہیں جبکہ نئے تقرر پانے والے چیف الیکشن کمشنر سردار رضا خاں اور اب وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کی مشاورت سے مقرر ہونے والے چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجہ بالخصوص حکمران جماعت کی تنقید کی زد میں ہیں۔ اسی طرح چیئرمین نیب جاوید اقبال بھی اپنی اب تک کی مدت ملازمت کے دوران یکساں طور پر حکومت اور اپوزیشن جماعتوں کی کڑی تنقید کی زد میں رہتے ہیں۔ آج حکمران پارٹی چیف الیکشن کمشنر سے نالاں نظر آتی ہے اور ڈسکہ کے ضمنی انتخاب اور سینٹ انتخابات کے حوالے سے الیکشن کمشن کے فیصلوں پر برس رہی ہے تو اپوزیشن جماعتیں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی چیئرمین نیب کی کردار کشی کے مواقع نکالتی رہتی ہیں۔ اس وقت بھی نیب مریم نوازکی منسوخیٔ ضمانت کی درخواست کے حوالے سے ان کی اور مسلم لیگ (ن) کے دوسرے قائدین کی کڑی تنقید کی زد میں ہے جس سے ایک تو ریاستی آئینی اداروں کے احترام کی روایت عنقا ہو رہی ہے اور دوسرے ملک میں سیاسی کشیدگی ، انتشار اور اداروں کے ساتھ ٹکرائو کے رحجان سے ملک میں خانہ جنگی کا ماحول پیدا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ 
یقیناً ریاستی آئینی اداروں نے تو آئین میں تفویض کردہ اپنی ذمہ داریوں اور اختیارات کے مطابق ہی فرائض منصبی ادا کرنے ہوتے ہیں جس میں آئین و قانون کی عملداری اورانصاف کے تقاضے بہرصورت ملحوظ خاطر رکھے جاتے ہیں۔ اگر کسی فریق کو ان کے فیصلوں سے اختلاف ہو تو اس کے لئے اپیل کے مجاز فورم بھی موجود ہیں اس لئے اسے متعلقہ ادارے کو رگید کر ماحول خراب کرنے کے بجائے متعلقہ مجاز فورم سے رجوع کرنا چاہئے۔ 
اس وقت حکومتی پارٹی کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر پر تنقید سے ملک میں سیاسی محاذ آرائی اور منافرت کا طاری ہوتا ماحول جمہوریت کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگاتا نظر آ رہا ہے۔ اس کی جانب سے چیف الیکشن کمشنر اور کمشن کے ارکان کے مستعفی ہونے اور نئے الیکشن کمشن کی تشکیل کا تقاضہ بادی النظر میں آئین کی دفعات 209 ، 213 ،  اس کی ذیلی دفعات -2 الف ، 2 ب اور دفعہ 215 کے تقاضوں کے سراسر منافی ہے۔ کیونکہ ان دفعات کی روسے چیف الیکشن کمشنر اور ارکان کا تقرر وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کی باہمی مشاورت سے پانچ سال کے لئے عمل میں آیا ہے۔ اس آئینی مدت سے پہلے نئے کمشن کا تقرر عمل میں نہیں لایا جا سکتا جبکہ چیف الیکشن کمشنر کو صرف سپریم جوڈیشل کونسل ان کے خلاف دائر کسی ریفرنس میں ہی فیصلہ صادر کر کے  برطرف کر سکتی ہے۔ حکومت ان کے خلاف ریفرنس دائر کئے بغیر ان کی برطرفی کا مطالبہ کیسے منوا سکتی ہے۔ 
اس تناظر میں بہتر یہی ہے کہ آئینی ریاستی اداروں کے معاملہ میں ذاتی پسند ناپسند کے تحت نتائج حاصل کرنے کی سوچ سے گریز کیا جائے اور ان کے احترام کے تقاضے ملحوظ خاطر رکھے جائیں۔ آئین کے تحت ریاستی ادارے بھی وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کا حصہ ہیں جن کی معاونت کے ساتھ ہی سسٹم کو خوش اسلوبی سے چلایا اور مستحکم بنایا جا سکتا ہے۔ اگر حکمران طبقات خود کسی ریاستی ادارے کے پیچھے لٹھ لے کر پڑے نظر آئیں گے تو مثالی گورننس کا خواب کیسے شرمندۂ تعبیر ہو پائے گا۔ 

ای پیپر دی نیشن