لاہور (تجزیہ: ندیم بسرا) آخر کار وہ بات وہاں تک پہنچ ہی گئی جس خدشہ کا اظہار پی ڈی ایم کی تحریک کے پہلے روز سے کیا جارہا تھا کہ یہ ’’ہنڈیا چوراہے پر پھوٹے گی‘‘۔ زدرای کی سیاسی چال کام کر گئی کہ مسلم لیگ (ن) کو کسی ایک محاذ پر دفاعی حکمت عملی پر مجبور کیا جائے ۔ زردای مختصر مدت کے بعد دل کی بات ہونٹوں پر لے ہی آئے کہ ’’نواز شریف کو ملک آنا پڑے گا‘‘۔ اس بات کے کرنے کا مقصد کیا ہوسکتا ہے یہ تو واضح ہو گیا کہ پیپلز پارٹی ملک کے اداروں کے خلاف محاذ کھولنے کو تیار نہیں۔ پیپلز پارٹی’’جیو اور جینے دو‘‘ کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ اسی وجہ سے پی ڈی ایم میں باقی جماعتوں کی لانگ مارچ اور اجتماعی استعفوں والی بات کی دال نہیں گلی۔ یہ ہونا بھی نہیں تھا۔ سندھ اتنا بڑا صوبہ ہے اتنے ایم این ایز قومی اسمبلی اور سینٹ میں پی پی کی نمائندگی کرتے ہیں تو کیا وہ مولانا فضل الرحمن کے بہکاوے میں یہ جماعت آسکتی تھی۔ پیپلز پارٹی نے پہلے دن طے کر لیا تھا کہ وہ ایسا کریں گے اور نہ ہونے دے گی۔ پیپلز پارٹی کا پی ڈی ایم میں ساتھ رہنے اور ساتھ چلنے کا مقصد یہ بھی تھا کہ ملک بھر میں اپنے سیاسی تشخص کو برقرار رکھا جائے اور پی ڈی ایم کے ملک کے طول وعرض کے جلسوں میں پیپلزپارٹی اپنا پیغام عوام تک اسی فورم سے پہنچائے جس میں وہ کامیاب بھی ہوئے۔ پھر اسی دوران سندھ کے ضمنی انتخابات میں ان کی کامیابی اور گلگت بلتستان میں پیپلز پارٹی نے اپنا حصہ پورا وصول کیا، یوں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم پر زرداری نے اپنی حکمت عملی سے اپنے آپ کو منوایا اور ان کے ارادوں کو بھانپتے ہوئے ان کو آگے بھی بڑھنے نہیں دیا۔ اب پی ڈی ایم کے اجلاس میں سیاسی گرما گرمی سے یہی لگ رہا ہے کہ مسلم لیگ ن کو اپنے وجود کو برقرار رکھنے کے لئے کوئی نئی حکمت عملی اپنانا ہو گی۔ کیونکہ اب لانگ مارچ اور اجتماعی استعفے قصہ پارینہ ہو گئے ہیں۔ اب کیا پی ڈی ایم اپنا خود کا وجود برقرار رکھ سکے گی یا کچھ روز بعد پی ڈی ایم کے سربراہ فضل الرحمن اپنی رضا مندی سے اس تحریک سے علیحدہ ہو کر اپنا لائحہ عمل دے دیں گے اور مسلم لیگ ن بھی آئندہ انفرادی طور پر شہر شہر میں احتجاجی تحریک چلانے کا اعلان کردے گی۔ سیاسی مبصرین کا ماننا ہے کہ پی ڈی ایم کے تابوت میں آخری کیل آصف علی زرداری نے ٹھونک دیا ہے۔