میاں غفار احمد
پنجاب میں طویل عرصے بعد ہارس اینڈ کیٹل شو کے ساتھ ساتھ ہر ضلع میں ثقافتی تقریبات کا آغاز ہو چکا ہے اور اس مرتبہ پنجاب کلچرل ڈے کے حوالے سے وزیراعلیٰ سردار عثمان احمد بزدار نے ایک منفرد کام کیا کہ پنجاب کے تمام نیم سرکاری دفاتر میں ایک دن کے لئے پنجابی کلچر کی جھلک نظر آئی۔ افسران پنجاب کی روایتی پگ پہنے ہوئے دفاتر میں کام کرتے نظر آئے اور کئی دہائی بعد پگڑی کی شان جہاں دیکھنے کو ملی وہیں پر نئی نسل کو اس پگڑی کا تعارف ہوا۔ وہ بھول چکے تھے کہ پگڑی اور اس کا شملہ کیا ہوتا ہے۔ انگریز نے جب برصغیر پر قبضہ کیا تو اس نے اردلی کے سروں پر پگڑیاں اور جسم پر شیروانیاں سجا کر انہیں اپنے دربان بنا دیا۔ یہ سب اس نے ایک گھٹیا سازش کے تحت پگڑی اور ہمارے آباؤ اجداد کے روایتی لباس کی توہین کی آج معلوم ہوا کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے جو اپنی منفرد ثقافت کا امانت دار ہے۔ پنجاب اپنی ثقافت روایات اور پہناوے کی ترویج اسی طرح چاہتا ہے جس طرح ہمارے سندھی بھائی سالہا سال سے اجرک اور سندھی ٹوپی کو متعارف کرا رہے ہیں اس کی شان برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ فیصل آباد سے رکن قومی اسمبلی چودھری الیاس جٹ مرحوم پگڑی پہن کر قومی اسمبلی میں جایا کرتے تھے اور اس طرح مظفرگڑھ سے رکن قومی اسمبلی مہر ارشاد سیال نے بھی گزشتہ دنوں پگڑی پہن کر قومی اسمبلی میں جس خوبصورت الفاظ میں اظہار خیال کیا جبکہ پنجاب اسمبلی میں بھی کئی اراکین اسمبلی پگڑی اور دھوتی کے ساتھ شریک ہوتے تھے جس میں تحصیل لالیاں سے سابق رکن اسمبلی مہر دوست محمد لالی مرحوم کی بھی پگڑی اور دھوتی بھی مشہور تھی۔
موسم بہار کی ان خوشیوں کو سیاسی آلودگی نے ماند کر دیا ہے اور قوم کو اس حد تک ذہنی اذیت دی جارہی ہے کہ کسی سے سلام بھی لیں تو ہ جواب میں سیاسی صورتحال بارے سوال کرتا ہے جھوٹ کی ہنڈیا دن رات پکائی جا رہی ہے اور سچ یہ ہے کہ ابھی تک نہ تو اپوزیشن کے پاس مطلوبہ تعداد ہے نہ وہ عدم اعتماد کامیاب کرا سکے اور نہ ہی حکومت کو اعتبار ہے کہ اس کے ممبران ان کا ساتھ دیں گے یا پھر اپوزیشن سے جا ملیں گے۔ کبھی منڈیوں میں ریٹ کھلتے تھے‘ کینوں‘ خربوزے اور دیگر سبزیوں کے ٹرکوں پر صبح کی نماز سے پہلے ہی بولیاں لگانے والے چڑھے ہوتے تھے اور ایک ایک لنگر کی علیحدہ علیحدہ بوری لگتی تھی ٹرک کے ڈالے کی جگہ اب ڈرائنگ رومز نے لے لی ہے اور بولیاں مجمعے میں نہیں بلکہ بند کمروں میں لگ رہی ہیں ‘ جتنے منہ اتنی باتیں کوئی دس کروڑ کوئی پندرہ کروڑ اور کوئی 18 کروڑ کی باتیں کر رہا ہے مگر یہ سب ہوائی باتیں ہیں دوسری طرف سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر تو ابھی مشاورت کر رہے ہیں جبکہ سینیٹر فیصل جاوید کے دعویٰ کے مطابق عدم اعتماد پر ووٹنگ 28 مارچ کو ہو گی۔ وزیراعظم جس طرح ملاقاتیں کر رہے ہیں حتیٰ کہ وہ زبیدہ جلال اور ڈاکٹر ذوالفقار مرزا سے بھی ملنے پر مجبور ہیں جو اس امر کی نشاندہی ہے کہ وزیراعظم بھی ممبران کی مطلوبہ تعداد کے حوالے سے خاصے دباؤ میں ہیں۔ وزیراعظم کو اپنے دو وفاقی وزراء اور ایک مشیر کی موومنٹ کا بھی خیال رکھنا ہو گا جو ہمیشہ ہی سے سیاسی موسم کے اتار چڑھاؤ کو بہت پہلے ہی بھانپ جاتے ہیں یا پھر انہیں آگاہ کر دیا جاتا ہے۔
ملتان سے رکن قومی اسمبلی ملک احمد حسن ڈیہڑ کا حکومت سے ناراضگی کے حوالے سے ویڈیو بیان کوئی معمولی بات نہیں۔ ملتان میں گزشتہ تیس سالوں میں پی ٹی آئی کے تین اراکین اسمبلی جس بری طرح سے نظرانداز ہوئے ہیں جس طرح سے ان کے کاموں میںرکاوٹیں ڈالی گئی ہیں اور جس طرح کے ان کے فنڈز کا اجراء روکا گیا ہے ان کے پاس تبدیلی کے ہوا کا ساتھ دینے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں چھوڑا گیا اور میری معلومات کے مطابق ملتان سے تعلق رکھنے والے دو اراکین قومی اسمبلی سخت نالاں ہیں جن میں سے صرف ایک ملک احمد حسن ڈیہڑ نے کھل کر اعتراضات کئے ہیں جبکہ دوسرے رکن اسمبلی بظاہر خاموش مگر لاوا ان کے اندر بھی پک رہا ہے۔ ضلع ملتان سے پاکستان تحریک انصاف نے قومی اسمبلی کی تمام نشستیں جیتی تھیں مگر یہاں فنڈز کی فراہمی میں رکاوٹیں اور من پسند افسران کی ٹرانسفر‘ پوسٹنگ میں اراکین اسمبلی کے درمیان وجہ عناد بنی رہی۔ ملتان شہر میں تین اراکین اسمبلی اپنے حلقوں میں کھل کر فنڈز کا استعمال کر سکے جن میں سرفہرست زین قریشی ہیں جبکہ ان کے بعد ملک عامر ڈوگر اور شاہ محمود قریشی کا نمبر آتا ہے۔ رہا معاملہ ابراہیم خان کا تو رکاوٹوں کا سامنا انہیں بھی کرنا پڑا مگر وہ پارٹی کے ساتھ کھڑے ہیں۔
جنوبی پنجاب میں حکمران پارٹی کے اندر سیاست موجود گروپ بندی کی جہانگیر ترین گروپ کے قائم ہونے کا باعث بنی۔ عدم اعتماد کی اس تحریک کا وزیراعظم پر اتنا دباؤ ہے کہ جو وزیراعظم ہر ہفتے کابینہ کا اجلاس بلاتے تھے اب وہ چار ہفتوں سے اجلاس نہیں کر پا رہے یہ الگ بات ہے کہ سابق وزیراعظم نواز شریف کا کابینہ اجلاس نہ بلانے کا دورانیہ 8ماہ سے بھی زائد رہا تھا۔ اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے کہ یہاں کبھی صدارتی نظام کی بات ہوتی ہے تو کبھی جمہوری پارلیمانی نظام جبکہ مارشل لاء بغیر کسی بھی وجہ اور بات کے نافذ ہو جاتا ہے مگر کوئی بھی نظام انصاف اور نظام اصلاح کی بات نہیں کرتا کوئی بھی سیاسی پارٹی اس ملک میں بہتری نہ لا سکی اور عمران خان کو بھی جو ٹیم دی گئی ان پر بھی بہت سے سوالات اور اعتراضات اٹھتے رہے۔
تادم تحریر تو تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی اور اس صورتحال میں اصل لاٹری چھوٹی پارٹیوں کی نکل رہی ہے جو اپنی عددی حیثیت کو کئی گنا سے ضرب دے کر بازار سیاست میں اپنے مفاداتی سٹال سجائے بیٹھے ہیں۔