آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت منعقدہ کورکمانڈرز کانفرنس میں باور کرایا گیا ہے کہ پاکستان کے اندر بھارتی میزائل گرنے سے بڑی تباہی ہو سکتی تھی۔ پاک فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق جی ایچ کیو راولپنڈی میں منعقد ہونیوالی 248ویں کورکمانڈرز کانفرنس میں خطے کی صورتحال اور عالمی امور پر مفصل بریفنگ دی گئی۔ کانفرنس میں شریک کورکمانڈرز نے بھارتی میزائل فائرنگ کے حالیہ واقعہ کا سخت تشویش کے ساتھ جائزہ لیا اور مطالبہ کیا کہ بھارتی غلطی کے اعتراف کے باوجود عالمی فورمز اس واقعہ کا سنجیدگی سے جائزہ لیں۔ اس حوالے سے بھارتی سٹرٹیجک اثاثوں کے تحفظ اور حفاظتی پروٹوکول کی جانچ اہم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسے خطرناک واقعات کسی بڑے سانحہ کا محرک بننے کے ساتھ علاقائی امن اور تذویراتی استحکام کو شدید خطرے میں ڈال سکتے ہیں۔
دریں اثناء کورکمانڈرز کانفرنس میں ملک کی اندرونی سکیورٹی صورتحال اور مغربی بارڈر پر موجود چیلنجز کا بھی جائزہ لیا گیا۔ آئی ایس پی آر کے مطابق چیف آف آرمی سٹاف نے ہدایت کی کہ 23 مارچ کی پریڈ اور او آئی سی وزرائے خارجہ کانفرنس کیلئے جامع سکیورٹی پلان مرتب کیا جائے۔ کانفرنس کے شرکاء نے عزم کیا کہ ملک کی سکیورٹی کیلئے تمام تر اقدامات اٹھائے جائینگے۔ آرمی چیف نے دہشت گردی کیخلاف جاری کامیاب اپریشنز کو سراہا اور فارمیشنز کی اپریشنل تیاریوں کی بھی تعریف کی۔ آرمی چیف نے گزشتہ روز لاہور کا بھی دورہ کیا اور کورآف آرٹلری میں 15‘ ایس ایچ آرٹلری گنز کی شمولیت کی تقریب میں شرکت کی۔ انہوں نے اس امر پر اطمینان کا اظہار کیا کہ متذکرہ آرٹلری گنز سے پاک فوج کی اپریشنل تیاریوں میں اضافہ ہوگا۔ آرمی چیف لاہور یونیورسٹی آف مینجمنٹ بھی گئے اور طلبہ و فیکلٹی ممبران سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ دشمن کی طرف سے غلط معلومات اور پراپیگنڈا قومی ہم آہنگی کیلئے خطرہ ہے۔
یہ امر واقعہ ہے کہ آج ملک میں تیزی سے پھیلتے سیاسی انتشار اور عدم استحکام کی فضا سے ملک کی سلامتی کے درپے ہمارے ازلی دشمن بھارت کو اپنی سازشوں کو وسعت دینے کا نادر موقع مل رہا ہے جس نے ’’را‘‘ کے تربیت یافتہ دہشت گردوں کو افغانستان کے راستے سے پاکستان میں داخل کرکے یہاں دہشت گردی کی وارداتوں اور خودکش حملوں کا سلسلہ تیز کر دیا ہے۔ دو ہفتے قبل پشاور کی ایک مسجد میں نماز جمعہ کے موقع پر کیا گیا خودکش حملہ بھی اسی سلسلہ کی کڑی تھی جس میں مجموعی 72 نمازی شہید اور 200 کے قریب زخمی ہوئے۔ اسی طرح بلوچستان کے مختلف علاقوں میں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے اپریشنز میں مصروف عمل پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی مزاحمت اور ان پر حملوں کا سلسلہ بھی ان دہشت گردوں کی جانب سے جاری ہے اور گزشتہ روز بھی بلوچستان کے علاقے سبی میں بم دھماکہ کے نتیجہ میں چار ایف سی اہلکار شہید اور چھ زخمی ہوئے ہیں۔ اس واردات میں سکیورٹی فورسز کے قافلے کو دیسی ساختہ بم سے نشانہ بنایا گیا۔ اس سے قبل بھی بلوچستان میں سکیورٹی فورسز کے قافلوں پر دہشت گرد حملوں کے نتیجہ میں دو درجن کے قریب سکیورٹی جوان اور افسران شہید ہو چکے ہیں۔
یہ صورتحال اس امر کی عکاس ہے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت تشکیل پانے کے بعد پاک افغان سرحد پر پاکستان کی جانب سے لگائی گئی باڑ کو طالبان کی جانب سے قبول نہ کرنے کے نتیجہ میں بھارت کو اس سرحد کے راستے اپنے تربیت یافتہ دہشت گرد پاکستان میں داخل کرنے کا موقع ملا جنہوں نے یہاں دوبارہ منظم ہو کر دہشت گردی کی وارداتوں اور خودکش حملوں کا سلسلہ شروع کیا۔ اسی دوران حکومت اور اپوزیشن قیادتوں کے مابین شروع ہونیوالی اقتدار کی رسہ کشی کے باعث ملک میں سیاسی انتشار اور عدم استحکام کی فضا ہموار ہوتی نظر آئی تو بھارت نے اسے بھی پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنی سازشیں پھیلانے کیلئے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ بالخصوص وزیراعظم عمران خان کیخلاف اپوزیشن کی جانب سے عدم اعتماد کی تحریک پیش ہونے کے بعد گزشتہ ہفتے سے امن و امان کی فضا مزید مخدوش ہوتی نظر آنے لگی ہے تو بھارت کو پاکستان کی سلامتی کیخلاف کھل کھیلنے کا مزید موقع مل رہا ہے۔ اپوزیشن کی جانب سے آٹھ مارچ کو وزیراعظم کیخلاف عدم اعتماد کی تحریک قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی گئی جس سے ملک کی سیاسی فضا میں مزید گرما گرمی پیدا ہوئی اور اسکے اگلے روز 9 مارچ کو بھارت کی جانب سے داغا گیا سپرسانک میزائل پاکستان کے اندر میاں چنوں کے علاقے میں آگرا جسے حالات و واقعات کے تناظر میں بادی النظر میں کسی اتفاقی حادثے سے ہرگز تعبیر نہیں کیا جاسکتا اور محسوس یہی ہوتا ہے کہ بھارت نے پاکستان میں پیدا شدہ سیاسی عدم استحکام کی صورتحال کو بھانپ کر اسکی دفاعی صلاحیتوں کا جائزہ لینے کیلئے میزائل داغنے والی شرارت کی ہے جس کے بارے میں ہماری سول اور عسکری قیادتوں کی جانب سے بروقت اور بجا طور پر تشویش کا اظہار کیا گیا اور بھارت کے علاوہ عالمی برادری کو بھی باور کرایا گیا کہ اس میزائل کے ذریعے پاکستان کی فضائی حدود کو سخت خطرے سے دوچار کیا گیا جو اس دوران محوِ پرواز ملکی اور غیرملکی پروازوں کی تباہی پر منتج ہو سکتا تھا جبکہ اسکے زمین پر گرنے سے بھی بڑے انسانی جانی نقصان کا خدشہ تھا۔
یہ تو قدرت کے خاص کرم سے ہم اس بھارتی شرارت کے نتیجہ میں کسی بڑے نقصان سے بچ گئے مگر بھارت کی یہ حرکت اس نوعیت کی ہے کہ اس پر عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کی جانب سے فوری نوٹس نہ لیا گیا تو اس سے خطے میں توسیع پسندانہ عزائم رکھنے والے بھارت کے حوصلے مزید بلند ہونگے۔ اسی بنیاد پر وزیر خارجہ مخدوم شاہ محمود قریشی نے گزشتہ روز یواین سیکرٹری جنرل انتونیو گوئٹرس اور صدر سلامتی کونسل کو ایک مراسلہ بھجوایا ہے جس میں بھارت کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہوئے باور کرایا گیا ہے کہ اس حرکت پر بھارت کی سادہ سی وضاحت کے ساتھ اس سنگین معاملے کو حل نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ایسے غیرذمہ دارانہ واقعات بھارت کی ایئرسیفٹی اور علاقائی امن و استحکام کے معاملہ میں اسکے غیرسنجیدہ رویے کے بھی عکاس ہیں۔
بے شک عساکر پاکستان تو ملک کی سلامتی کو درپیش کسی بھی اندرونی اور بیرونی چیلنج سے عہدہ برأ ہونے کیلئے مکمل تیار اور چوکس ہیں اور کسی قربانی سے دریغ بھی نہیں کر رہیں۔ دفاع وطن کے تقاضے نبھانا عساکر پاکستان کی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کا بنیادی حصہ ہے اس لئے قوم اپنی افواج پاکستان کی خداداد صلاحیتوں اور مہارت و مشاقی کے باعث دفاع وطن کے معاملہ میں مکمل مطمئن ہے تاہم موجودہ صورتحال میں قومی سیاسی قیادتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ ملک کو سیاسی انتشار اور عدم استحکام کی جانب دھکیلنے سے گریز کریں تاکہ تاک میں بیٹھے ہمارے مکار دشمن بھارت کو ہماری کسی بھی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع نہ ملے۔ کورکمانڈرز کانفرنس میں اسی تناظر میں ملک کی اندرونی سکیورٹی کی صورحال اور مغربی سرحدوں پر درپیش چیلنجوں کا سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لینے کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بے شک عساکر پاکستان ہر آزمائش اور ہر مشکل گھڑی میں ملک کی سلامتی کے تحفظ کی ذمہ داریوں میں سرخرو ہونگی تاہم ملک میں سیاسی کشیدگی اور تنائو بڑھے گا، جس کے اب عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے آثار بھی پیدا ہو رہے ہیں، تو ہم بھارتی سازشوں کیخلاف عالمی برادری کو سنجیدگی کے ساتھ متوجہ نہیں کر پائیں گے۔ ہماری قومی سیاسی قیادتوں کو باہمی سیاسی اختلافات اس نہج تک نہیں لے جانے چاہئیں کہ عساکر پاکستان کی توجہ ملک کی سرحدوں پردرپیش چیلنجوں سے ہٹ جائے۔ ایک دوسرے کیخلاف صف آراء حکومتی اور اپوزیشن جماعتوں کو آئین کے تقاضوں کے مطابق عدم اعتماد کی تحریک کے پارلیمنٹ کے اندر ہی منطقی انجام کی نوبت آنے دینی چاہیے۔ پارلیمنٹ کے باہر اودھم مچایا جائیگا تو اس سے دشمن کے ہاتھوں ملک کی سلامتی کو مزید خطرات سے دوچار کیا جائیگا۔