بدقسمتی سے ہمارے ملک میں خواندگی کی شرح ہم جیسے غیر ترقی یافتہ یا نیم ترقی یافتہ ممالک میں بہت کم ہے ،جسے بہتر کرنے کی کوشش کوئی بھی سیاست دان یا حکومت کرنے کو تیار نہیںشائد لگتا ہے کہ انکا خیال یہ ہے کہ جب ہم نے نہیں پڑھا تو قوم کیوں پڑھے ؟ طویل عرصے سے ملک پر قابض ہر سیاست دان اور حکومت خوش ہوتی ہے کہ قوم جاہل رہے تاکہ انکی چالاکیوں ، بے ایمانیوں سے غافل رہے مجھے یاد ہے کہ شہید بے نظیر بھٹو کی حکومت کے ایک وزیر اطلاعات جدہ آئے ، اس دن پاکستان کے ایک انگریزی اخبار میں انکے خلاف ایک مضمون شائع ہوا ان سے ہم نے پوچھا کہ آپکے متعلق یہ کچھ کہاگیا ہے ، مگر وزیر موصوف نہائت مطمئن رہے اورکہا کہ ’’میرا ووٹر انگریزی نہیں جانتا ، وہ کیا جانے کہ اخبار میں کیا لکھا ہے ، لکھنے دو ۔لیکن شرح خواندگی کی کمی کا اب کوئی مسئلہ نہیں اب عوام مرحوم شاعر حبیب جالب کی طرح ’’دس کروڑ یہ گدھے جنکا نام ہے عوام ‘‘ والے عوام نہیں رہے انکے ذہنی شعور کو روشن کسی ڈگری ، یونیورسٹی نے نہیں بلکہ انہیں درپیش مسائل نے کردیا ہے ۔ اب وہ بہت ہی کم شائد چھوٹے شہروں، گائوں میں یہ صورتحال ہو مگر عوام کی اکثریت سیاست سمجھ چکی ہے ۔چونکہ جب تمام تر محنت کے بعد انکے حالات بد سے بد تر ہوتے ہیں، جب اشرافیہ اور عوام میں غیر مساوات ہوتی ہے امیر امیر ترین ، اور غریب غریب ترین ہورہا ہے تو کوئی تو وجہ ہے ۔ مجھے یا د ہے 1978 ء میں پاکستان میں آزادی صحافت کی تحریک میں مارشل حکومت نے ہم پر الزام لگایا کہ یہ صحافی آ زادی صحافت کیلئے نہیں بلکہ سیاسی جدوجہد کررہے ہیں تو ہمار ا جواب یہ تھا کہ سیاست کرنے پر اشرافیہ اور ملک پر قابض لوگ خود عوام کو مجبور کرتے ہیں جب ہم بازار جاتے ہیں اشیائے صرف کی قیمت بڑھی دیکھتے ہیں اور اسکا مقابلہ اپنی محنت کرکے سوچتے ہیں کہ یہ کیوں ؟ کیوں کہ میری محنت میں اضافہ ہے مگر میرے گھر میں راشن میں کمی ہے میری ضروریات پوری نہیں ہو پارہی ہیں تو اس سوچ کے ساتھ ہی سیاست کی ابتداء ہوجاتی ہے ، یہ عوام کی سیاست ہوتی ہے جہاں وہ پھر ایسے سربراہ کی امید لگا بیٹھتے ہیں جو انکی محنت کے عوض منصفانہ معاوضہ اور سہولیات میسر کرسکے ۔اشرافیہ عوام کی اس عوامی مطالبے کو ’’سیاست ‘‘کا نام دیتے ہیں، دراصل اشرافیہ اور ملک کے ذرائع پر قابض یہ لوگ ’’سیاست نہیں ’’سیاہ ست‘‘ کرتے ہیںکم تر شرح خواندگی کی بناء پر سیاست دان ہر معروف لفظ کا بھی اپنے ضروریات کے مطابق مطلب عوام کو بتاتے ہیں ۔ آجکل بحث ہے ــ’’جانبدرای ، غیر جانبداری کی ، غیر جانبداری کا مطلب یورپ کی اعلی سوسائٹی( یورپ کو بہت ہی تعلیم یافتہ کہا جاتاہے ) یورپ میںتعلیم حاصل کرنیوالے ہمارے سیاست دان ’’غیر جانبدار‘‘شخص کو ’’جانور ‘‘ سے تشبیہہ دی ہے ۔ ایک زمانہ تھا کہ ہمارے سیکورٹی ادارے سیاست دانوں کے معاملات میں دخل اندازی کرتے تھے ، کون سی حکومت ہوگی، کسے کتنی نشستیں ملنی چاہیں اور یہ معاملات بھرپور معلومات رکھنے والے ا فراد او دانشور کہلانے والے چائے خانوںمیں موضوع بحث بناتے تھے ، ’’بھر پور ‘‘ معلومات رکھنے والے صحافی اپنے کالمز میں انتخابات سے قبل ہی پارٹی پوزیشن بتادیا کردیا تھے ۔آئین پاکستان کے مطابق ان اداروںکا اس میں دخل اندازی کرنا آئین کی خلاف ورزی تھا مگر دخل اندازی ہوا کرتی تھی، جسکی عادت ہمارے سیاست دانوںکو پڑگئی،وہ اپنی کامیابی یا کس جماعت سے انتخاب لڑیںوہ بھی اپنے ذرائع سے پوچھ کر فیصلہ کرتے تھے مگر اب ایسا نہیں۔سیاست دانوںکے معاملات ، کس کی حکومت ہو کون وزیر ہو، کون وزیر اعظم ان معاملات سے بہت دور اللہ کا شکر ہے کہ ہماری ادارے صرف اور صرف ملک کی سلامتی پر اپنی توجہ مرکوز کئے ہوئے ہیںاور ہر جگہ جہاںسیاسی حکومت ملک کی سرحدوں کو ہلانے کا سبب بنتی ہیں وہاںاسے ٹھیک کرنا انکا فرض ہے اور یہ ہی ہمارا آئین کہتا ہے ۔ ہمارے گزشتہ مارشل لائوںنے جمہوریت کو سخت نقصان پہنچایا ، مرحوم ضیاء الحق ہوں یا بیمار مشرف انہوںنے اپنے ناجائز اقتدار کو طول دینے کو سیاسی دھڑے بندیاںکیں ، ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کو کمزور کرنے کیلئے لسانی اور چھوٹی جماعتوں کو مصنوعی جلا بخشنے کی کوشش کی اور آج ہم جگہ پہنچ چکے ہیں کہ ملک کی تین بڑی جماعتوںمیں کوئی بھی کتنی ہی مضبوط ہو اپنی جماعت کی اکثریت کے حکومت نہیں بناسکتی ،عوام دیکھ رہے ہیں کہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی در در بھٹک رہے ہیں مارشل لائوںکی پیداوار سیاسی جماعتیں وزارتوں، مفادات، کی سودے بازی بڑی جماعتوں کے ساتھ کررہے ہیںاور وہ بڑی جماعتیں مجبور ہیں، مگر یہ مضبوط جمہوریت نہیںایک کمزور جمہوریت کا فروغ ہے چونکہ یہ لوگ کسی کا بھی ساتھ دیکر اپنے مفادات پر سودے بازی کرینگے اور کوئی حکومت بننے کے بعد اپنی دوسری قسط کیلئے پھر مرکز میں قائم کسی بھی جماعت کو بلیک میل کرینگی۔ اقتدار کی ہوس میںبڑی جماعت مطالبات تسلیم کرلیگی، انکی مثال کسی عمارت کی ان اینٹوں کی ہے جو اگر عمارت سے کسی بھی وقت نکال لی جائین عمار ت گر جائیگی ، اسلئے ملک مین استحکام ایک دیوانے کا خاب ہے ۔
جانبداری ، غیر جانبداری کا مفہوم
Mar 17, 2022