’’عاشقانِ عمران‘‘ کو بھائی زلمے کی تجویز


بدھ کی رات بہت دیر تک جاگتا رہا۔ وجہ اس کی یہ ارادہ تھا کہ جمعرات کی صبح اٹھ کر زلمے خلیل زاد کے بارے میں تفصیلی کالم لکھا جائے۔اس ضمن میں افغانستان کے بارے میں لکھی چند کتابوں میں میری جانب سے نشان زد ہوئے حوالوں سے رجوع کرنا لازمی سمجھا۔ موصوف ان دنوں ’’پاکستان سدھارنے‘‘ اور اسے جمہوری راہ پر قائم رکھنے کے لئے ٹویٹ پر ٹویٹ لکھے جارہے ہیں۔اس کی دانست میں عمران خان صاحب ان دنوں ہمارے مقبول ترین رہ نما ہیں۔انہیں گرفتار کرنا حماقت ہوگی۔ان کا راستہ روکنے کے بجائے رواں برس کے جون میں عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنایا جائے۔یہ تجویز دیتے ہوئے زلمے کے ذہن میں غالباََ یہ خیال بھی ہے کہ مجوزہ مہینے میں انتخاب کا ا نعقاد عمران خان کی اقتدار میں واپسی یقینی بناسکتا ہے۔
عاشقان عمران کو اس کی تجویز بہت بھائی ہے۔ہم کوئی غلام ہیں کا ورد کرنے والے شاداں ہیں کہ امریکی فیصلہ سازوں کے لئے ’’معتبر‘‘ گردانا افغان نژاد زلمے ان کے قائد کی حمایت میں کھڑا ہوگیا ہے۔آئی ایم ایف سے ایک ارب ڈالر کی قسط کے حصول کے لئے ایڑیاں رگڑتی حکومتِ پاکستان موصوف کی تجویز سنجیدگی سے لینے کو مجبور ہوجائے گی۔
میرا ارادہ تھا کہ جمعرات کی صبح اس ہفتے کا آخری کالم لکھتے ہوئے زلمے خلیل زاد کی ’’اہمیت‘‘ کا جائزہ لوں۔ اس کی تجویز اور حب عمران کے اظہار کی وجہ سے بھنگڑے ڈالتے دوستوں کو بتائوں کہ مشرقی افغانستان کے نچلے متوسط طبقے سے ابھرکر آج سے کئی دہائیاں قبل امریکی وظیفے پر اعلیٰ تعلیم کے لئے اس ملک گیا زلمے وہاں کی شہریت حاصل کرنے کے بعد کن لوگوں کی سرپرستی میں فیصلہ ساز حلقوں میں اپنا مقام بنانے کے قابل ہوا تھا۔
کئی دہائیوں تک زلمے خلیل زاد امریکہ کے نسل پرستوں کی پسندیدہ جماعت ری پبلکن پارٹی کی جانب سے منتخب ہوئے صدور کا چہیتا رہا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے حصول کے دوران اس نے اپنی توجہ ایران اور عراق کے ان مبینہ ارادوں پر مبذول رکھی جو ان دونوں ممالک کو ’’ایٹمی قوت‘‘ کے حصول سے ’’ناقابل تسخیر‘‘ بنانا چاہ رہے تھے۔ اس ضمن میں کشید کئے ’’علم‘‘کو اس نے ری پبلکن صدور کی نیشنل سکیورٹی ایجنسی میں ’’معتبر‘‘ مقام حاصل کرنے کے لئے مہارت سے استعمال کیا۔اصل لاٹری مگر اس کی نائن الیون کے بعد نکلی۔امریکہ اس کی وجہ سے افغانستان پر حملہ آور ہوا تو زلمے کا افغان نژاد ہونا اس کے بہت کام آیا۔
اپنے تئیں افغانستان پر ’’قابو‘‘ پالینے کے بعد امریکی صدر بش صدام حسین کے عراق پر بھی حملہ آور ہوگیا تھا۔جواز اس کا عراق کے ’’ایٹمی پروگرام‘‘ کو بنایا گیا تھا۔وہ پروگرام تباہ تو کیا ہوتا بلکہ ’’دریافت‘‘ بھی نہ ہوپایا۔صدام حسین اقتدار سے اگرچہ محروم ہوگیا۔اس کی فراغت کے بعد بعث پارٹی کا تشکیل دیا ریاستی ڈھانچہ بھی پاش پاش ہوگیا۔ عراق کی بہت لگن سے بنائی فوج بھی منتشر ہوگئی۔
’’نیا عراق‘‘ تعمیر کرنے اور اسے ’’جمہوری نظام‘‘ فراہم کرنے کے لئے زلمے خلیل زاد کو بغداد میں امریکی سفیر تعینات کردیا گیا۔ اس کی مبینہ ’’ذہانت‘‘ نے جو بیج بوئے نتیجہ اس کا بالآخر ’’داعش‘‘ جیسی دہشت انگیز تنظیم کی صورت برآمد ہوا۔ واشنگٹن اس پر قابو پانے کے لئے چرب زبان سفارت کاروں کے بجائے اپنے فوجی کمانڈروں سے رجوع کرنے کو مجبور ہوا۔ زلمے کا دل رکھنے کو تاہم اسے افغانستان میں امریکی سفیر تعینات کردیا گیا۔اس کو یہ فرض سونپا گیا کہ وہ حامد کرزئی کو افغانستان کا ’’باقاعدہ‘‘ منتخب ہوا صدر ثابت کرے۔مذکورہ ہدف کے حصول کے لئے زلمے نے کرزئی کے ممکنہ حریفوں کو جن کی اکثریت غیر پشتون افغانوں پر مشتمل تھی سی آئی اے کی بھرپور معاونت سے کمزور تر بنایا۔
مزید تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے فی الوقت فقط اتنا یاددلانا ہی کافی ہے کہ صدر ٹرمپ نے زلمے خلیل زاد کو افغانستان کی جنگ سے جند چھڑانے کے لئے اپنا معاون خصوصی مقرر کیا تھا۔اس کی ’’معاونت‘‘ سے افغانستان کا مسئلہ بالآخر جس انداز میں حل ہوا اس کے ’’ثمرات‘‘ سے ہم بخوبی آگاہ ہیں۔ مذکورہ ’’ثمرات‘‘ کی بدولت امریکہ کی عسکری اشرافیہ زلمے خلیل زاد کی صورت دیکھنے کوبھی رضا مند نہیں ہے۔بائیڈن انتظامیہ اس کی ’’ذہانت‘‘ سے رجوع کرنے کو قطعاََ آمادہ نہیں۔ ’’پھرتے ہیں میرؔ خوار‘‘ والا معاملہ ہے۔یہ حقیقت بھی یاد رکھنا ہوگی کہ افغانستان کے حوالے سے اپنی ندامت کا زلمے خلیل زاد پاکستان کو تہہ دل سے ذمہ دار تصور کرتا ہے۔ وہ ہمارا خیر خواہ ہونے کا ڈھونگ رچائے تو ’’ہوئے تم دوست جس کے…‘‘ والا شعر ہی دہرانا ہوگا۔
بہرحال یہ کالم میں غالباََ زلمے خلیل زاد کی ’’ستائش‘‘ تک ہی محدود رکھتا۔ جمعرات کی صبح اٹھتے ہی اخبارات کے پلندے پر سرسری نگاہ ڈالی تو میرا وسوسوں بھرا دل فوری نوعیت کے ایک سنگین معاملہ سے گھبراگیا۔ منگل کے روز جب عاشقان عمران خان انسانی ڈھال کی صورت اختیار کئے ہوئے اپنے قائد کی گرفتاری کو ناممکن بناچکے تھے اسلام آباد کے ’’باخبرحلقوں‘‘ میں یہ بات پھیلی کہ پولیس تمام تر مزاحمت کے باوجود عمران خان صاحب کے زمان پارک والے گھر میں داخل ہوگئی تھی۔انہیں دیکھتے ہی لیکن وہاں موجود گلگت  بلتستان حکومت کی جانب سے بھیجی پولیس نفری نے ’’مداخلت کاروں‘‘ پر بندوقیں تان لیں۔لاہور پولیس اس سے گھبرا گئی۔’’بکری‘‘ بنی خالی ہاتھ واپس لوٹ آئی۔
سچی بات ہے کہ جو کہانی ’’باخبرحلقوں‘‘ کی وساطت سے مجھ تک پہنچی میرے شکی ذہن نے اس پر اعتبار نہیں کیا۔رپورٹر کی جبلت نے بلکہ یہ سوچنے کو مجبور کیا کہ لاہور اور اسلام آباد پولیس کی اجتماعی خفت مٹانے کے لئے مذکورہ کہانی گھڑلی گئی ہے۔جمعرات کی صبح اٹھ کر گھر آئے اخبارات پر نگاہ ڈالی تو علم ہوا کہ گلگت بلتستان میں تعینات ہوئے آئی جی کو تبدیل کردیا گیا ہے۔عجلت میں ہوئے اس تبادلے نے اس خبر کو درست ثابت کیا جو منگل کی رات مجھ تک پہنچی تھی۔ٹھوس تفصیلات سے میں اس وقت بھی بے خبر ہوں۔ گلگت  بلتستان کے آئی جی کی عجلت میں ہوئی تبدیلی نے مگر جو تاثر اجاگر کیا ہے اس سے دل گھبرا گیا ہے۔
عمران خان کی ’’حفاظت‘‘ کو اگر (اور میں اگر کو خط کشیدہ کرنا چاہوں گا) واقعتا گلگت بلتستان سے بھیجی پولیس نفری تعینات تھی اور اس نے واقعتا عمران خان صاحب کے گھر داخل ہوئی لاہور اور اسلام آباد پولیس کی مشترکہ نفری پر بندوقیں تان لی تھیں تو معاملہ بہت سنگین ہے۔ یہ کسی قابل اعتبار ادارے کی جانب سے صاف شفاف تحقیقات کا متقاضی ہے۔سینٹ ہمارے وفاق کی حقیقی علامت شمار ہوتا ہے۔میاں رضا ربانی جیسا ایک قابل اعتبار شخص اس کارکن بھی ہے۔موصوف کی سربراہی میں ایوان بالا کی ایک پانچ رکنی کمیٹی بنائی جاسکتی ہے۔اس میں تحریک انصاف کے نمائندہ سینیٹر بھی موجود ہوں۔اس کمیٹی کے ذمے یہ فرض لگایا جاسکتا ہے کہ وہ حقائق کا کھوج لگائے۔عمران خان صاحب کے گھر داخل ہوئی لاہور اور اسلام آباد کی پولیس نفری کو اگر واقعتا حکومت گلگت بلتستان کی جانب سے وہاں تعینات ہوئی نفری کی وجہ سے ’’پسپائی‘‘ اختیار کرنا پڑی تو معاملہ محض آئی جی کی تبدیلی پر ہی ختم نہیں ہونا چاہیے۔ ہمارے دئے ٹیکسوں سے چلائی پولیس کا بنیادی فرض تمام پاکستانیوں کو تحفظ پہنچانا ہے۔ وزرائے اعلیٰ اسے ’’وارلارڈز‘‘ کی طرح اپنی پسند کے قائدین کی ’’حفاظت‘‘ کے لئے دیگر صوبوں یا وفاق سے گئی پولیس کے خلاف استعمال کرنے کا حق نہیں رکھتے۔اگر اس روش کو نظرانداز کردیا گیا تو مستقبل میں ہولناک سانحوں کے لئے تیار رہیں۔

ای پیپر دی نیشن