نشاندہی … ڈاکٹر فاروق اعظم ہاشمی
صلح نامہ حدیبیہ کے کچھ وقت بعدبنو بکر کے ہاتھوں بنو خزاعہ کے قتل عام پرمعاملہ فہمی کی بجائے کفار مکہ نے اپنے حلیف قبیلے بنو بکر کی سخت ناجائز حمایت کرتے ہوئے ریاست مدینہ کے سفیرکے سامنے صلح حدیبیہ کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا پھر مکہ شریف فتح ہو گیا اس مبارک موقعے پر سینکڑوں تاریخی واقعات وقوع پذیر ہوئے ۔ کعبہ اللہ سے کفار مکہ کے بتوں لات ، منات ، ہبل و عزیٰ اور دیگر تمام بتوں کو باہر پھینک دیا گیا (بعض روایات کے مطابق" منات "نامی بت کو کفار مکہ نے چوری چھپے جدہ سے سمندری راستے کے ذریعے ہندوستان میں گجرات کے ساحل پر اصل شناخت چھپانے کے لئے"سومنات" کے نئے نام سے نصب کر دیا تھا جسے سترویں حملے(1027 ئ) میںسلطان محمود غزنوی ؒنے فتح سومنات کے موقع پر توڑاتھا واپسی پرفو ج کو ہندو جاٹ قبائل کی طرف سے سخت تنگ کرنے کے انتقام پر اس نے ہندوستا ن پر آخر ی یعنی اٹھارویں حملے میں ملتان کے جاٹ قبائل کا قتل عام کیاتھا) بحرحال فتح مکہ کے موقع پر خانہ کعبہ کی چابی حضرت عثمانؓ بن طلحہ کو سونپ دی گئی تھی جو آج بھی انکی اولاد کے پاس چلی آرہی ہے اور انشا ء اللہ قیامت تک رہے گی ۔ فتح مکہ کے بعد تمام قبائل اسلام قبول کرنے لگے اور مکہ مدینہ دنیا ئے عرب کے اہم ترین شہر بن گئے بنی کریم ؐ اور خلفائے راشدین ؓکے زمانے میں ان دونوں مقدس عبادت گاہوں یعنی بیت اللہ شریف اور مسجد نبوی کی حسب ضرورت ممکن حد تک توسیع کی جاتی رہی یہی تو سیع عمل اسلامی تاریخ کے ساتھ ساتھ ترقی کرتا رہا یہاں تک کہ نبی کریم ؐ کے زمانے کامدینہ شریف آج پوری مسجد نبوی میں ڈھل چکا ہے۔ اسی طرح بیت اللہ شریف بھی پہلے کی نسبت بہت وسیع وعریض رقبے پر پھیل چکا ہے یہ رب کریم کی شان ہے کہ مسلمانوں کی روزافزوں بڑھتی ہوئی تعداد کی وجہ سے تمام توسیعات کچھ وقت کے بعد ناکافی محسوس ہونے لگتی ہیں اور پھر کچھ نئی توسیعات کی ضرورت محسوس ہونے لگتی ہے میں تمام سعودی حکمرانوں کا خصوصی طور پر قدر دان ہوں کہ تمام حکمرانوں نے اپنے اپنے عہد حکومت میں اپنے تمام ملک میں خصوصی طور پر مکہ شریف اور مدینہ شریف پر نوازشات کی بارش جاری رکھی اور یہی نوازشات برادر اسلامی ملک پاکستان پر بھی ہمیشہ جاری رہتی ہیں ۔ حج بیت اللہ کے لئے جانے والے انفرادی یا اجتماعی طور پر (بالخصوص پاکستان انڈیا بنگلا دیش وغیرہ کے لوگ بڑی عمر کے لوگ ہوتے ہیں اور اکثر پہلی بار اتنا دور پردیس گئے ہوتے ہیں ان کے لئے بالخصوص اور عام لوگوں کے لئے بھی بالعموم اپنے ساتھی یا گروپ سے بچھڑ جانے کے بعد ڈھونڈ لینا ایک بہت مشکل کام ہوتاہے ۔ کیونکہ حرم شریف میں بچھڑے ہوئے یا گم شدہ کو اپنے چاروں طرف ایک ہی جیسا ماحول نظر آتا ہے ۔ اور موبائل فون کے باوجود بھی ڈھونڈنے والوں کو درست طور پراپنی پوزیشن سے آگاہ کرنا تقریباََ ناممکن ہو جاتا ہے ۔ حتی کہ قمیض پر لگے ٹیگ کی مدد سے بھی کافی دیر لگ جاتی ہے ۔ عمرہ کرنے والوں اور بالخصوص حجاج کرام کی حج کے ایام میں ان مشکلات کو ہمیشہ کے لئے حل کرنے کی خاطر میری تجویز یہ ہے کہ ٭نمازیوں کے ذہن میں سمت کے درست تعین کے لئے خانہ کعبہ کے چاروں اطراف میں غلاف کعبہ کے درمیان میں اوپری طرف چاروں پہلوئوں پر بڑے بڑے ہندسوں میں پہلو نمبراور سمت لکھوا دیا جائے (آئندہ حج کے لئے زیر تکمیل غلاف کعبہ میں متعلقہ جگہ پر بڑے بڑے ہندسوں میں اور متعلقہ سمت اپنی جگہ پر ابھی سے منقش کر دیا جائے) ٭مسجد نبوی اور حرم شریف کے اندر تمام منزلوں کے الگ شناختی نمبر کے ہمراہ تمام ستونوں پر بزرگوں کے پڑھے جانے کے قابل بڑے سائز میں چاروں اطراف میں پلر نمبر لگا دیے جائیں تاکہ ساتھیوں سے بچھڑ جانے پر کسی ایک ستون نمبر کے پاس اپنی موجودگی بتا کر ڈھونڈنے والوں کے لئے ڈھونڈنے میں آسانی پیدا کی جاسکے ٭مسجد نبوی اور حرم شریف سے باہر متعلقہ کھلے میدانوں میںبھی ہر جگہ کچھ مخصوص فاصلے پر سٹیل کے ستون بنا کر یہی آسانی پیدا کی جا سکتی ہے ٭گم ہو کر ساتھیوں سے بچھڑ جانے کا تناسب منی ٰ ، مزدلفہ ، اور عرفات وغیرہ میں بہت زیادہ ہوتا ہے ۔ اس کے تدارک کے لئے ان تمام علاقوں میں ہر جگہ کچھ فاصلے پر ستون بنا کر چاروں اطراف میں نمبر لگا دئے جائیں تو موبائل فون پر متعلقہ پلر نمبر کے پاس موجودگی بتا کر با سانی گم شد گان کو ڈھونڈا جا سکے گا ٭ غار حرا اور غار ثور وغیرہ جیسے مقدس مقامات کی زیارت کے لئے سیڑھیا ں تو بنا دی گئی ہیں بہتر یہ ہے کہ ایسے تمام مقامات کو ہر عمر کے لوگوں کے با اسانی قابل رسائی بنانے کے لئے چیئر لفٹ وغیرہ یا پھر روڈبنا دی جائے ٭حکومت پاکستان و سعودی عرب سے التماس ہے کہ اس وقت حج کے اخراجات غریب تو کجا؟ متوسط طبقے کی پہنچ سے بھی باہر ہوتے جا رہے ہیں استطاعت نہ ہو تو بھی حسرت حج تو ہر مسلم کی ہوتی ہے اب حج بیت اللہ صرف امیر لوگوں کی استطاعت میں آتا جا رہا ہے (پڑوسی غیرمسلم ملک انڈیا میں حج کے اخراجات بہت کم ہیں جبکہ ہمارے مسلمان ملک میںیہ بہت زیادہ ہیںکچھ سوچیں؟ ) اسی طرح وقت کے ساتھ ساتھ ہوائی جہاز کے ذریعے حج بیت اللہ بھی انتہائی مہنگا بنتا جا رہا ہے ۔ پاکستان سے ایران ،عراق، شا م، سعودی عرب ،کے راستے ریل کے ذریعے حج کے امکانات کا جائزہ لیاجائے ٭مستنتدتاریخی روایت ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی ؒفتح بیت المقدس کے بعد تقریباََ چھ سال زندہ رہا اس عرصے میں اس کی زندگی کی واحد حسرت حج کی سعادت تھی لیکن جب سلطان نے اس مقصد کے لئے اپنے ذاتی سرمائے کا جائزہ لیا تو وہ تکریت (صدام حسین کا بھی آبائی گائوں)میں ایک کچا کمرہ اور صرف 22 درہم چاندی تھی جو کہ اس سعادت کے لئے قطعاََ ناکافی تھی اور وہ یہی حسرت لئے دنیا سے چلا گیا حالانکہ وہ اس وقت کی تین ریاستوں( شام ، مصر، فلسطین ) موجود ہ دور کی سات ریاستوں کاحکمران تھا۔یہ واقعہ آنے والی حج سے پہلے مفت حج کی فلائٹس بھر بھر کے لے جانے والی بیوروکریسی اور ملکی دولت کو لوٹ مار کر کے سوئزر لینڈ ، برطانیہ اور دبئی کے بینکوں میں دفن کرنے والوں کی عبرت کے لئے لکھا ہے مشہور ہے کہ اگر آنکھ دیکھنے والی ہو تو ہر روز روز قیامت ہے۔