خانِ خاناں، جانِ جاناں


پھر سے ملاحظہ فرما لیجئے، تبدیلی کی ہمہ گیر لہر نے کہاں کہاں جلوے دکھائے ہیں۔ اب تک یہی سنا کہ پولیس نے نہتے مظاہرین کو تشدد کا نشانہ بنایا۔ اب تبدیلی جو آئی تو یہ سننے کومل رہا ہے کہ مسلح جتھوں نے یعنی ، پولیس کو مار مار کر بھوت بنا دیا اور پولیس کی یہ شامت لگ بھگ 20 گھنٹے جاری رہی، شہر لاہور کے وسط میں، تبدیلی کے گھنٹہ گھر زمان پارک کے اندر بھی اور باہر بھی۔ 
لاہور بھر کی پولیس جسے بعض دیگر اضلاع سے آئے ہوئے دستوں کی کمک حاصل تھی، خان اعظم بلکہ خان خاناں کی گرفتاری کے لیے گئی تھی، وارنٹ اس کے پاس تھے۔ خان صاحب نے وارنٹ کی تعمیل کے بجائے مسلح مجاہدین کے جتھے ان پر چھوڑ دئیے۔ پولیس بنتی تھی، پولیس کو حکم تھا کہ بس پانی کی توپ چلانا ہے یا شیلنگ اگر کرنی ہے تو دور دور سے، خبردار کوئی زخمی نہ ہونے پائے۔ چنانچہ اس یک طرفہ ’’جہاد‘‘ میں سو سے زیادہ پولیس والے زخمی ہوئے جن میں سے کئی کی حالت ایسی تھی کہ گرافک ہونے کی وجہ سے یوٹویب پر بھی ان کی وڈیو نہیں چلائی جا سکتی، ہاں وٹس ایپ پر یہ کلپ چلے۔ 
پنجاب پولیس کا جو حشر جمع نشر ہوا، اس نے وفاق اور پنجاب دونوں حکومتوں کی ساکھ راکھ کر دی، پنجاب پولیس کی رٹ بھی تحلیل ہو گئی اور حال کچھ ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ کل کلاں پولیس کسی نتھو ولدپھتو کو بھی پکڑنے گئی تو نیم دلی سے جائے گی اور نتھو ولد پھتو کے کارندوں سے کھنّے سینکوا کر واپس آ جائے گی۔ وزیر اعظم شہباز شریف تو درویش صفت آدمی ہیں، سیاست اور امور حکومت سے بر بنائے درویشی کوئی دلچسپی رکھتے ہیں نہ علاقہ، البتہ باقی حکومت کے لیے یہ بات لمحہ فکر مند یہ ضرور ہے۔ 
_______
دریں حالات ایک سنجیدہ قانون سازی کی ضرورت ہے۔ قانون سازی کے بنیادی نکات خان صاحب نے عملی طور پر پیش کر دئیے ہیں، اب مسودہ تیار کرنے کے بعد بس اسمبلی سے اس کی منظوری کا مرحلہ باقی ہے۔ 
بنیادی نکات کچھ یوں ہے۔ ملزم کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے سے پہلے ملزم کی رضا مندی حاصل کرنا لازمی ہو گا کہ وہ گرفتاری دینے یا عدالت میں پیش ہونے کے لیے تیار ہے اور اگر وہ تیار ہے تو اس سے پوچھ لیا جائے کہ وہ کس تاریخ تک تیار ہے۔ جواب نفی میں ہو تو معاملے کو وہیں ختم کر دیا جائے، ریاستی فورس کا سر تڑوانے کی کوئی ضرورت نہیں ۔
نیز مقدمہ درج ہونے کے بعد اس فیصلے کا اختیار ملزم کو دیا جائے کہ مقدمہ بے بنیاد ہے یا با بنیاد۔ اگر وہ کہے کہ بے بنیاد ہے تو فوری طور پر مقدمہ ختم کر دیا جائے اور ملزم سے معذرت کر لی جائے۔ 
اگر کہیں کچھ ملزم خطرناک قسم کے عملی اقدامات لے رہے ہوں  تو ان کیخلاف ایکشن کرنے کی ضرورت نہیں، سینئر حکام اس کے بجائے ان سے مذاکرات کریں اور مفاہمت کی فضا میں معاملہ حل کریں۔ بات کا بتنگڑ اور بتنگڑ کا بتنکڑا بنانے کی ضرورت نہیں۔ 
اس مقصد کے لیے بی بی سی وائس آف امریکہ کو دئیے گئے خان خاناں کے انٹرویوز سن کر رہنمائی لی جا سکتی ہے، خاص طور سے اس انٹرویو کو ملاحظہ کرنا ازحد مفید رہے گا جس میں خان خاناں نے ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ میں قانون پر عمل کرنے والا آدمی ہوں اور میں اس کے لیے قانون کی یکساں پابندی کا حامی ہوں۔ اس پر صحافی خاتون نے سوال کیا کہ آپ پر ایک مقدمہ ہے اور وارنٹ جاری ہو چکے ہیں ، پھر آپ قانون پر عمل کیوں نہیں کر رہے تو جواب میں ارشاد ہوا، اس لئے کہ وہ مقدمہ بے بنیاد ہے۔ 
قانون سازی میں ا س آخری نکتے کا خاص خیال رکھا جائے، یعنی یہ کہ مقدمہ کے بے بنیاد یا بابنیاد ہونے کا اختیار اور حق بلاشرکت غیرے ملزم کا ہو۔
____________
صورتحال کا حتمی نتیجہ ایک سطر میں سمویا جائے تو وہ کچھ یوں ہو گا کہ خان صاحب، معاف کیجئے گا خانِ خاں صاحب نے خود کو کامیاب ترین سائنس دان ثابت کر دیا ہے۔ 
سائنس سے مراد سیاسی سائنس ہے۔ آئن سٹائن کا سائنسی فارمولا یہ تھا کہ مارے کو ایک خاص عدد (بہت سے صفروں والا) سے ضرب دی جائے تو مار، تحلیل ہو جائے گا اور توانائی میں بدل جائے گا۔ خانِ خاناں کا فارمولا یہ ہے کہ ہزار ڈیڑھ ہزار نفری کا جتھہ اور تھوڑی سی عدل جاتی کمک کو جمع کیا جائے تو ریاست اپنی رٹ سمیت تحلیل ہو جاتی ہے
اور خان خاناں کی توانائی میں بدل جاتی ہے۔ یعنی جدلیات جمع عدل جات برابر تحلیل سیاست۔ 
آئن سٹائن کے فارمولے کو بنیاد بنا کر ایٹم بم بنایا گیا تھا، خان خاناں کے فارمولے سے فی الحال پٹرول بم بنا ہے لیکن یہ تو محض شروعات ہے، ’’اصل اور وڈّے‘‘ نتیجے کے لیے انتظار فرمائیے۔ 
____________
سابق امریکی سفیر اور ری پبلکن پارٹی کے ’’اثاثے‘‘ زلمے خلیل زاد نے خان خاناں کیخلاف ہونے والی کارروائیوں (؟) کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ جون میں الیکشن کرا کے ملک کی باگ ڈور خانِ خاناں کے سپرد کر دی جائے ورنہ حالات بہت خراب ہو جائیں گے۔ 
کچھ لوگوں نے مطالبہ کیا ہے کہ امریکی سفارت کار نے پاکستان کے داخلی معاملات میں مداخلت کی ہے، اس پر احتجاج کیا جائے۔ 
یہ مطالبہ اس غلط فہمی کی بنا پر ہے کہ خلل زاد نے مداخلت کی ہے حالانکہ مداخلت قطعی نہیں ہے۔ انہوں نے حکم دیا ہے۔ جون میں الیکشن کرانے کا حکم۔ احتجاج مداخلت پر ہوتاہے، حکم پر نہیں اور چونکہ ثابت ہو گیا کہ مداخلت نہیں ہے، حکم نامہ ہے اس لیے احتجاج کے مطالبے کا کوئی محل نہیں ہے۔ 
____________
اس بے بنیاد مطالبے کی نسبت جے یو آئی کے رہنما حافظ حمد اللہ کی تجویز مناسب اور معقول ہے۔ انہوں نے تجویز دی کہ زلمے خلیل زاد کو خانِ خاناں سے اتنا پیار ہے تو انہیں اپنے پاس بلا لیں۔ 
اگر اس پر رضامند نہ ہوں تو دوسری صورت بھی اختیار کی جا سکتی ہے یہ کہ خود زلمے خلیل پاکستان تشریف لے آئیں اور زمان پارک میں براجمان ہو جائیں۔ ویسے اتنا زیادہ پیار خان خاناں سے کرنے والے پاکستان میں بھی موجود ہیں۔ خان خاناں ، جانِ جاناں کے تصویر بنے ہوئے ہیں۔ 

ای پیپر دی نیشن