احوال ایک ادبی تقریب کا   

     shabaz
؎ شہبازانورخان 
 زبان و ادب کی خدمت اور فروغ کے سلسلے میں ادبی رسائل و جرائد کا ہر دور میں ہی اہم کردار رہا ہے ۔انیسویں صدی میں بہت سے رسائل نے علمی وادبی میدان میں گراں قدر خدمات انجام دیں تاریخ میں آج بھی ان کے نام کی بازگزشت  سنائی دیتی ہے ۔تقسیم ہند کے بعد پہلے سے متحدہ ہندوستان سے شائع ہونے والے رسائل کے علاوہ بھی بہت سے نئے رسائل منصہ ء شہود پر آئے جنہوںنے اپنی اپنی بساط کے مطابق یہ خدمت انجام دی ۔ان میں نقوش، سیپ ، قومی زبان، اردو ادب ،ماہ ِ نو، ادب ِ لطیف ، نئی قدریں، سنگ ِ میل، نصرت، فنون، اوراق، تخلیق،صحیفہ، شعور، قلم کار ، الفاظ ، پاکستانی ادب، ادبیات، الحمراء ، معاصر، حروف، قرطاس، اردو نامہ وغیرہ خاص طورپر قابل ِ ذکر ہیں۔بیسیوں اور پھر اکیسویں صدی میں بہت سے ادبی رسائل بوجوہ اپنی اشاعت جاری نہ رکھ سکے اور کچھ ایسے بھی تھے جن کی اشاعت میں پہلے جیسے باقاعدگی نہ رہی اور وہ اب بھی (طوعًا و کرہاً) اپنا وجود زندہ رکھے ہوئے ہیں ۔اس کی بڑی وجہ کمر توڑ مہنگائی ، کاغذ اور پرنٹنگ کے اخراجات میں بے مہابہ اضافہ قراردیاجاسکتاہے۔نیرنگ ِ خیال، ہمایوں ، ساقی ، سویرا ، نیا دور ، قومی زبان ، اس حوالے سے خاص طورپر قابل ِ ذکر ہیں۔ البتہ جو چند ایک ادبی رسائل آج بھی کسی نہ کسی طرح اپنی اشاعت جاری رکھے ہوئے ہیں اور آسمان ِ ادب پر جگمگا رہے ہیں ان میں ماہنامہ ’’ تخلیق ‘‘ سب سے نمایاں ہے ۔اس رسالے کا اجراء اردو و پنجابی کے ممتاز شاعر، ادیب اورصحافی اظہر جاوید نے 1969ء میں کیا تھا۔اور یہ وہ واحد رسالہ ہے جو اپنی اشاعت کے روز ِ اول سے لے کر آج تک جاری و ساری ہے ۔ 14فروری 2012ء کو اس کے مالک و مدیر اظہر جاوید کی رحلت کے بعد یہ گمان پیدا ہو چلا تھا کہ جس طرح دوسرے رسائل و جرائد اپنے مالک کی وفات کے بعد اشاعت کاسلسلہ جاری نہ رکھ سکے اور وہ رسائل ماضی ء مرحوم کا حصہ بن گئے اسی طرح اب اظہر جاوید کے 
 اہل ِ خانہ بھی اس بھاری بھرکم پتھر کو چوم چاٹ کر ایک طرف رکھ دیں گے اور پھر فقید المثال ماہنام بھی گمنامی کے اندھیروں میںڈوب جائے گا ۔لیکن ایسا نہیں ہوا ۔ اظہر جاوید کے جواں سال صاحبزادے سونان اظہر جاوید نے اپنے والد کے انتقال کے بعداس کی اشاعت کا بیڑا اٹھایا اور اس عزم بالجزم کا اظہار کیا کہ وہ اپنے والد کی اس عظیم نشانی کو سینے سے لگائے رکھے گا اور اس میراث کو ضائع نہیں ہونے دے گا اور اسے ہر حالت میں جاری رکھے گا ۔آج اظہر جاوید کو اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے گیارہ سال ہو چکے ہیں لیکن ان کا لگایا یہ ادبی پودا نہ صرف سرسبز و شاداب ہے بلکہ زیادہ مضبوطی اور خوب صورتی کے ساتھ ایک تن آور درخت کی صورت میں موجود ہے ۔جس کا تمام تر کریڈٹ سونان اظہر کے سر جاتا ہے ۔ جنہوں نے ان نامساعد حالات کے باوجود پوری ہمت ، توانائی اور کمٹمنٹ کے ساتھ اس ذمہ داری کو نبھایا ہے ۔سونان اظہر جاوید کی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ایک خوبی یہ بھی ہے کہ انہوں نے اپنے والد کے دوستوں کے ساتھ اسی طرح رشتہ استوار رکھا اور انہیں ’’ تخلیق ‘‘ کے ساتھ جوڑے رکھا جس طرح ان کی والد مرحوم نے جوڑ رکھا تھا۔اظہر جاوید بلا شبہ تعلقات نبھانے والے اور بہت محبت کرنے والے انسان تھے اور آخری وقت تک وہ دوستوں میں محبتیں تقسیم کرتے رہے ۔سونان اظہر نے بھی اس روائت کو زندہ رکھا ہے ۔
 آج ’’ تخلیق ‘‘ کی خوشبو چہار دانگ عالم میں پھیلی ہوئی ہے اور یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ اظہر جاوید انتقال کر گئے ہیں حالانکہ ہم نے خود ان کے جسد ِ خاکی کو قبرستان کے شہر ِ خموشاں کے سپرد کیا لیکن سچ یہ ہے کہ اظہر جاوید جسمانی طور پر بیشک آج ہم موجود نہیں ہیںلیکن سونان اظہر اور ’’ تخلیق ‘‘ کی صورت میں وہ پوری طرح موجود ہیں اور ہر لحظہ اپنی موجودگی کا احساس دلاتے رہتے ہیں ۔سونان اظہر نے ’’ تخلیق ‘‘  کی اشاعت ہی کو یقینی نہیں بنایا بلکہ اس نے آگے بڑھ کر ’’ تخلیق ایوارڈ ‘‘کا سلسلہ بھی شروع کردیا ۔جس کے تحت نمایا ں خدمات انجام دینے والے سینئر ادیب ( مرد یا عورت ) کو ہر سال یہ ایوارڈ دیاجاتا ہے ۔جو آج کے علم دشمن سماج میں ایک انتہائی مثبت قدم بلکہ ایک بڑا کارنامہ قراردیا جاسکتا ہے ۔دلچسپ امر یہ ہے کہ یہ انتخاب اس قدر کڑا اور معیار ی ہوتا ہے کہ انتک جتنے بھی ایوارڈ ز تقسیم کیے جاچکے ہیں ان میں سے کسی ایک پھر پر کسی کونے کھدرے سے بھی اعتراض سامنے نہیں آسکا۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سونان اظہر نے اسے اپنی پسند ، ناپسند سے بالا تر ہو کر خالص میرٹ کی بنیاد پر جاری رکھا ہے اور یہ کام وہ خود نہیں کرتا اس نے ایک کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے جو عرق ریزی ، محنت اور تمام پہلووں سے جائزہ لینے کے بعد باہمی مشاورت سے کسی ادبی شخصیت کا نام تجویز کرتی ہے اور یوں بہت سی چھلنیوں سے چھلنے کے بعد اس نام کو فائنل کرنے کا مرحلہ آتا ہے ۔اب تک جن شخصیات کو اس ایوارڈ کا مستحق گردانا گیا ہے ان میں شفیع عقیل ، ڈاکٹر انور سدید، بانو قدسیہ ،نیر جہاں ، عذرا اصغر، حسن عسکری کاظمی، سرفراز سید، بشریٰ رحمان، ڈاکٹر رشید امجد، آغاگل جیسے بڑے قد کاٹھ کی ادبی شخصیات کے نام شامل ہیں ۔دیکھ لیجئے ان میں کوئی ایک بھی نام ایسا نہیں ہے جس پر انگلی اٹھائی جاسکتی ہو ۔ اس ’’ مرکزی ایوارڈ ‘‘ کے علاوہ بھی بہت سے دیگر ایوارڈز مختلف علمی ، ادبی ، سماجی اور ثقافتی میدان کی اہم شخصیات کو دیے جاتے ہیں جو ’’ تخلیق ‘‘ دوست ہونے کے ناتے اس کی معاونت کرتے ہیں ۔یہ ایوارڈز ہر سال ایک باوقار تقریب میں تقسیم کیے جاتے ہیں جس میں اندرون ملک ہی نہیں بیرون ملک سے بھی اہم علمی و ادبی شخصیات شرکت کرتی اور اسے رونق بخشتی ہیں ۔یہ محض تقریب ِ تقسیم ِ ایوارڈز ہی نہیں ہوتی تقریب ِ بہر ِ ملاقات بھی ہوتی ہے جس میں دور دراز سے آئے بہت سے ادیب و شاعردوستوں کو ایک دوسرے سے ملنے کا موقع میسر آتا ہے اور یوں یہ تقریب ایک بڑی اور یادگار تقریب کی شکل اختیار کرلیتی ہے جسے سالوں یاد رکھا جاتا ہے ۔سال 2023ء کے لیے ’’ تخلیق ایوارڈ ‘‘ جس شخصیت کے حصے میں آیا وہ جھنگ سے تعلق رکھنے والے بزرگ ادیب ، محقق اور مترجم حنیف باوا تھے جنہوں نے تمام عمر ادب کی خدمت اور آبیاری کے لیے وقت کررکھی ہے اور اپنی خدمات کے باعت ملک بھر میں بڑا نام کمایا ہے ۔تقریب کا انتظام اس سال بھی فالکن ہاوسنگ سوسائٹی میں واقع کلب کے خوب صورت ہال میں کیا گیا تھا ۔اس رنگا رنگ تقریب میں ایک سو سے زائد ادیبوں و شاعروں، تخلیق کاروں اور فنکار وں نے شرکت کی ۔ مہمان ِ خاص جناب حنیف باوا کے ساتھ صاحب صدارت اصغر ندیم سید ، پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید ، نذیر قیصر ، محمود احمد قاضی اسٹیج کی زینت تھے ۔ جبکہ خواتین و حضرات کی ایک کہکشان اسٹیج کے سامنے ہال میں جلوہ افروز تھی ۔ اسٹیج سیکرٹری کے فرائض ہمارے روزنامہ ’’ جنگ ‘‘ کے ایک سینئر ساتھی ع ادیب مرحوم کی ہونہار صاحبزادی صوفیہ بیدار نے انجام دیے ۔جو خود بھی ایک اچھی
 شاعرہ اور کالم نگار ہیں اورجنہیں لفظوں سے کھیلنے اور بات کہنے کاہنر آتا ہے ۔ تاہم بعض حضرات کے نام وہ درست طورپر ادا نہیںکرسکیں ۔ جس کی وجہ شائد ان کی ان حضرات سے ناواقفیت یا نامانوسیت ہو سکتی ہے ۔بہر حال انہوں نے اسٹیج سیکرٹری کے فرائض خوبصورتی اور عمدگی سے ادا کیے ۔ اس موقع پر سرگودھا سے نامور ادیب و شاعر اور ماہر اقبالیات پروفسیر ڈاکٹرہارون الرشید تبسم، خالد اقبال یاسر ، نذیر قیصر اور دیگر نے بھی اظہار ِ خیال کیا اور اظہر جاوید ، سونان اظہر اور ماہنامہ ’’ تخلیق ‘‘ کے حوالے سے اپنی یادیں تازہ کیں ۔تاہم استادالاساتذہ پروفیسر ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا ، پروفیسر ڈاکٹر سعادت سعید اور ڈاکٹراصغر ندیم سید کے خطابات خاصے کی چیز قراردیے جاسکتے ہیں ۔ اور ان سے ہٹ کر سونان اظہرنے جس اعتماد اور خوب صورتی کے ساتھ اپنے جذبات کا اظہار کیا اس نے بھی بہتوں کے دل جیت لیے ۔بہرحال یہ ہر اعتبار اور ہر لحاظ سے یہ ایک بہترین تقریب تھی جو کسی بھی ادبی اور تقافتی تقریب سے کہیں باوقار اور معیاری قراردی جاسکتی ہے ۔اس تقریب کو میابی سے ہمکنار کرنے والوں میں مسز سونان اظہر ، ممتا زافسانہ نگار اور خوبصورت شاعرہ تسنیم کوثر، جناب مظہر سلیم مجوکہ ، آْفتاب خان ، سحر حفیظ اور دیگر نے شب و روز کام کیا ۔ اس کامیابی پر ماہنامہ ’’ تخلیق ‘‘ کے مدیر ِ شہیر سونان اظہر اور ان کی مذکورہ ٹیم یقینی طورپر لائق ِ تحسین ہیں ۔
  
 

ای پیپر دی نیشن