حضرت مولانا محمد عبیداللہ ایک عہد ساز شخصیت


 17مارچ بسلسلہ یوم وفات 
حضرت مولانا محمد عبیداللہ ایک عہد ساز شخصیت

55سال تک جامعہ اشرفیہ کے مہتمم  رہے 
 مولانا حافظ اسعد عبید
عالمِ اسلام کی عظیم علمی و دینی شخصیت جامعہ اشرفیہ لاہور کے سابق مہتمم میرے والدِ گرامی حضرت مولانامحمد عبیداللہ کی تمام زندگی قال اللہ و قال الرسول کی صدائیں بلند کرتے اور اشاعتِ دین میں گذری آپ علم و عمل، زہد و تقویٰ کے پیکر تھے آپ کا تعلق اْن علمائ￿  حق کے ساتھ ہے جن کے آباؤ اجداد نے تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا آپ کے والد گرامی بانی جامعہ اشرفیہ حضرت مولانا مفتی محمد حسن نے اپنے پیر و مرشدحضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے حکم پر شیخ الاسلام علامہ شبیر احمد عثمانی، مولانا ظفر احمد عثمانی مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع اور دیگر علمائے دیوبند کے ساتھ تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیتے ہوئے قیام پاکستان میں بنیادی کردار ادا کیا۔
 مولانا محمد عبیداللہ کے والد گرامی حضرت مولانا مفتی محمد حسن کواللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی دیگر نعمتوں سے نوازا وہاں آپ کو انتہائی نیک اور صالح اولاد بھی عطا فرمائی۔۔آپ نے اپنی زندگی میں دو نکاح کئے تھے جن سے آپ کے ہاںسات بیٹے اور تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔ مولانا محمد عبیداللہ 1921ء میں امرتسر میں پیدا ہوئے آپ نے ابتدائی قاعدہ سے لیکر حفظِ قرآن تک کی تعلیم قاری رحیم بخش سے حاصل کی اور 9سال کی عمر میں قرآنِ کریم مکمل حفظ کر لیا جس کے بعد صرف ونحو اور فارسی کی کتابیں مولانا محمد یوسف صاحب اور دورہ حدیث تک کی کتابیں اپنے والد محترم بانی جامعہ اشرفیہ لاہور حضرت مفتی محمد حسن سے پڑھیں اور پھر حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کے حکم اور مشورہ سے عالَم اسلام کے عظیم دینی یونیورسٹی دارالعلوم دیوبند میں دورہ حدیث کے لئے تشریف لے گئے ۔دارالعلوم دیوبند میں بخاری شریف شیخ العرب و العجم حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی سے پڑھی آپ بہترین خوش الحان قاری قرآن ہونے کی وجہ سے دارالعلوم دیوبند میں آپ ان چندگنے چنے خوش نصیب طلبہ میں شامل تھے جو دورانِ سبق حدیث کی مشہور کتاب بخاری شریف کی عبارت پڑھا کرتے تھے۔ آپ کے دیگر اساتذہ میں استاذ المحدثین علامہ انور شاہ کاشمیری، شیخ الادب حضرت مولانا اعزاز علی، جامع المعقول و المنقول مولانا ابراہیم بلیاوی، اسیر مالٹا مولانا نافع گْل اور مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع عثمانی جیسے اکابرین شامل ہیں۔آپ نے1941ء کو دارالعلوم دیوبند سے سندِ فراغت حاصل کی جس کے بعد افتاء کا کورس کرنے کے ساتھ ساتھ آپ نے پنجاب یونیورسٹی سے عربی فاضل کا امتحان امتیازی حیثیت کے ساتھ پاس کرتے ہوئے ڈگری حاصل کی۔
دارالعلوم دیوبند سے سندِ فراغت کے بعد اپنے والد ماجد حضرت مفتی محمد حسن کی سرپرستی میں مدرسہ نعمانیہ امرتسر میں درس و تدریس کا آغاز کیا ۔ آپ  1953 سے 1961ء  تک جامعہ اشرفیہ لاہور میں درس و تدریس کے ساتھ ساتھ ناظمِ تعلیمات کے عہدہ پر بھی فائز رہے اس دوران حضرت مفتی محمد حسن  نے اپنی زندگی میں ہی آپ کو جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم کا عہدہ تفویض فرمادیا۔    
 جامعہ اشرفیہ لاہور کوعالم اسلام کی سرکردہ اور ممتاز شخصیات کی میزبانی کا شرف بھی حاصل رہا، شیخ الازہر، مفتی اعظم فلسطین، مسجد اقصیٰ کے سابق امام کے ساتھ ساتھ آپ کی خصوصی دعوت پر ہردلعزیز امام ِ کعبہ فضیلہ الشیخ ڈاکٹر عبد ا لرحمن السدیس حفظہ اللہ2007ء میں پاکستا ن تشریف لائے اور جامعہ اشرفیہ لاہور میں نماز فجر کی امامت فرمائی جسے پوری دنیا میں میڈیا کے ذریعہ برا ہ راست دیکھا اور سنا گیا۔ان عرب شخصیات کی آمد پر پاک سعودی تعلقات میںمزید مضبو طی اور استحکام کو فروغ ملا۔
آپ نے کم و بیش 55 سال تک جامعہ اشرفیہ لاہور میں درس و تدریس پر مامور رہے ۔ مسجد الحسن جامعہ اشرفیہ لاہور میں جمعہ المبارک کا خطبہ دیتے ہوئے نماز پڑھاتے اور رقت آمیزدعا میں حاضرین سے انتہائی لجاجت کے ساتھ ایک جملہ ہمیشہ فرمایا کرتے تھے ’’آپ لوگوں کا مجھ ناچیز پر احسان عظیم ہوگا کہ میرے لئے بھی دعاکریں کہ اللہ تعالی میرا خاتمہ بالایمان فرمائیں‘‘ ۔ 
اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا محمد عبیداللہ کو انتہائی نیک و صالح اولاد سے نوازاجن میں پانچ بیٹے قاری احمد عبید، قاری ارشد عبید، امجد عبید، راقم حافظ اسعد عبیداور حافظ اجود عبید اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ان میں سے ہر کوئی شب و روز دین کی اشاعت اور جامعہ اشرفیہ کی خدمت میں مصروف عمل ہیں۔آپ جامعہ اشرفیہ لاہور کے مہتمم کے منصب پر فائز رہنے کے ساتھ ساتھ ممبراسلامی نظریاتی کونسل، مدیر اعلیٰ ماہنامہ الحسن اور دیگر اداروں کے رکن رہے۔ حکومت پاکستان نے قومی و ملی خدمات پر آپ کو تمغہ ستارہ امتیاز سے بھی نوازا۔ 
وفات سے تقریبًا دو ہفتے قبل علالت کے باعث مقامی ہسپتال میں زیر علاج رہے جہاں آپ نے انتہائی صبر و استقامت کامظاہرہ کیا۔ آخر کار 11 مارچ 2016 بروز جمعۃ المبارک بوقت تہجد علم و عمل اور زہد و تقویٰ کا یہ سورج اپنے ہزاروں شاگردوں اور  لاکھوں عقیدت مندوں کو اپنی جدائی کے غم میں روتا تڑپتا چھوڑ کر غروب ہوگیا۔آپ کی نماز جنازہ جامعہ اشرفیہ لاہور بعدنماز جمعہ آپ کے بیٹے مولانا قاری ارشدعبیدمدظلہ نے پڑھائی سیاسی و مذہبی شخصیات اور سپیکر قومی اسمبلی سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی سے وابستہ افراد نے اس اجتماع میں بڑی تعداد میں شرکت کی۔اورمرحوم کو بعد میں مقامی قبرستان شیر شاہ اچھرہ لاہور میں سپرد خاک کر دیا گیا۔
خدا رحمت کند ایں عاشقانِ پاک طینت را
؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛؛

ای پیپر دی نیشن