”پاکستان ہم سب کی ریڈ لائن“


”عدلیہ “ کیلئے بے پناہ د±عائیں۔ قابل صد احترام ججز صاحبان کو سلیوٹ۔ ”توشہ خانہ ریکارڈ“ پبلک کرنے پر حکومت بھی قابل تعریف۔ بہت اچھا قدم کہ حکومت نے ’توشہ خانہ“ کے قانون میں ترمیم کر دی۔ ”جامعہ نعیمیہ “ نے بھی تحائف وصول کرنے کو غیر شرعی قرار دیدیا۔ حقیقت یہی ہے کہ تحائف شخصیات کو نہیں ریاستی عہدوں کو ملتے ہیں۔ بجا فیصلہ کہ پابندی عائد کر دی۔ میری تجویز ہے کہ ”حکومت“ قانون بنا دے کہ نہ تحائف وصول کیے جائیں گے اور نہ ہی دئیے جائیں گے۔ مزید براں تحفہ چاہے کروڑوں روپے کی مالیت کا ہے یا پھر ہزاروں روپے کا۔ کوئی بھی ”عہدے دار“ وصول نہیں کرسکتا۔ یہ ایک تاریخی فیصلہ ہوگا یہ تاج کوئی بھی اپنے سر پر سجا لے۔ پھر کہونگی کہ ”پاکستان ہم سب کی ریڈ لائن ہے“ ہر لائن حفاظت کی متقاضی ہوتی ہے اور جب بات ہو ’‘ریڈ لائن“ کی تو پھر ذِمہ داری بے انتہا بڑھ جاتی ہے۔وقت پر درست فیصلہ اور سب سے بڑھ کر نیت صاف شفاف۔پاک ہو تو سونے پر سہاگہ کے مترادف ہے۔ہم سب کی ”ریڈ لائن“ ہمارا ملک ہے۔ اِسکی سالمیت۔ اتحاد کیلئے دل سے کوشش کی ضرورت تبھی ممکن ہے جب ہم دل سے ”نیت“ کر لیں گے۔ کوئی بھی ہو ”اداروں “ کو ب±را بھلا کہنے کی روش کو بہرحال ختم ہونا چاہیے۔ تمام ”ادارے“ محترم ہیں۔ قوم اور اداروں کو کمزور کرنے کی کوششیں ہم سب نے مل کر مٹانی ہیں۔ سب کا متحد ہونا۔ سب کا اکٹھ انتہائی ضروری ہے۔ ”میثاق پاکستان“ انتہائی ضروری ہے۔
یونان کے وزیر ٹرانسپورٹ عہدے سے مستعفی۔ نہ دباو¿ نہ استعفی دینے کی ہدایت۔ صرف” ضمیر“ نامی چیز نے کام کر دکھایا۔ضمیر زندہ ہیں تو ا±نکے معاشرے ر±وبہ ترقی ہیں۔ صرف ”36 لوگ“ حادثہ کا شکار ہوئے۔ ایسا نہیں ”ایک“ کا عدد بھی لاکھوں پر بھاری ہے ا±نکے لیے جس کا کوئی ”پیارا“ رخصت ہو جائے۔کہنے کا مقصد یہ کہ یہاں تو سینکڑوں روزانہ پار ہو جاتے ہیں مگر ”وزیر “ کیا ایک معمولی اہلکار بھی مستعفی نہیں ہوتا۔ قوم صرف وہی خوشحال ہوتی ہے جو عمل کے فیز میں رہتی ہو۔ تقریروں کے انبار پر کھڑی قوم ترقی یافتہ نہیں زوال پذیر ہوتی ہے جو آج ہمار احال ہے۔ کچھ عرصہ سے شخصی نفرت در نفرت کی پرتیں انتہائی حد تک گہری دلدل میں قوم کو دھکیل چکی ہیں بے سروپا سیاسی اختلاف ذاتی عناد کے سوا کچھ نہیں۔ ”مقدمات در مقدمات“ معیشت پر ہمہ وقت ماتم کرنے۔ رونے والی اشرافیہ کیلئے بلاشبہ تفریح طبع ہے مگر محض خواری ہے جو متحارب سیاسی فریق ایک دوسرے کو دے رہے ہیں پر اِس خواری کی ”اہلیان وطن“ کو بھاری قیمت چکانا پڑ رہی ہے۔ اِس کا رتی بھر احساس محسوس نہیں کیا جارہا۔ کیوں ؟ کیا ہم سب عوام نہیں ؟ جمہوریت کا ذاتی سطح کی نچلی ترین حد تک دشمنیوں میں ڈھلتا ڈھانچہ۔ کیا ہم اِسکے ناخوشگوار۔ تلخ ترین اثرات کے رونما ہونیوالے تازہ ترین نتائج سے لمحہ بھر کو بھی آنکھیں بند کرنے کے متحمل ہو سکتے ہیں ؟یقینا جواب ناں میں ہے مگر عمل۔ نیت تا حال مفقود۔ یہ روش قطعی طور پر ملکی نظام کیلئے خوش آئیند نہیں۔ بیانات سے لیکر افعال تک ہر پہلو کو جانچ لیں۔ اخلاقی سماجی۔ مذہبی (سیاست تو کب کی نابود ہو چکی ہے) کِسی لحاظ سے بھی مناظر ایک جمہوری ملک کی بظاہر جمہوریت پسند ”قیادت “ کا نقشہ پیش نہیں کرتے۔ شک نہیں جمہوریت میں ”شخصی کردار“ کلیدی اہمیت کا حامل ہے پر بغض۔ کینہ کے طور پر اِس کا استعمال مستحسن نہیں اور نہ ہی عوامی سطح پر ایسی سرگرمیوں۔ طرز تخاطب اورگفتگو کو کبھی پذیرائی ملی۔
 ”صاحب کِردار۔ صاحب ایمان“ ملکی قیادت کا بہترین انتخاب اور ج±ھومر ہیں اگر قوم کی قسمت یاوری کرے اور دستیاب ہو جائیں۔متذکرہ بالا اشخاص کسی بھی کمزوری۔ کرپشن۔ ذاتی طمع سے ماوراءہوتے ہیں۔ نگاہیں صاف۔ دل شیشہ کی طرح چمکتا ہوا۔ دماغ اپنے ”حقیقی مالک“ کے احکامات سے بھرپور آگاہ۔ تو بتائیے ولی صفت لوگوں کی حکومت بھلا کیسے نہ عوام کی منشا کےمطابق چلے۔ عوامی آوازوں پر کیسے نہ کان دھرے۔ اندیشہ ہائے دور دراز کا ماحول ہے نہ لہجے نہ الفاظ نہ زبان نہ اعمال کچھ (ہم سب کا) بھی تو ٹھیک نہیں۔ ساری کہانی ”مفادات بینک “ کے تحفظ کی ہے لپیٹ میں عوام ہیں۔ ملک ہے۔ قوم اور ملک کی توہین کا قیام پاکستان کے فوری بعد آغاز ہو گیا تھا اِس پر کبھی کسی نے توجہ نہیں دی۔ کِسی نے پابندی نہیں لگائی۔سند ھ میں انوکھا قدم۔ ”میڑک۔ انٹر“ امتحانات ”ریڈ مارکر“ نامی کمپنی کو ٹھیکے پر دینے کا فیصلہ۔ تعلیمی حلقوں میں شدید برہمی۔ تعلیمی ایکٹ کے تحت امتحانات آو ٹ سورس نہیں کیے جاسکتے۔ امتحان سے جانچنے تک اب تمام کام ٹھیکہ دار کرےگا۔ ماہرین تعلیم معترض ہیں کہ لاکھوں اساتذہ کی فوج کے باوجود اتنا بڑا قدم کیوں ا±ٹھانے کا سوچا۔ یقینا حکومت کے سامنے تمام حقائق ہوتے ہیں مکمل جائزہ کے بعد ہی عمل درآمد کرنے کی طرف بڑھا جاتا ہے۔ ہم تو صرف یہی تجویز کر سکتے ہیں کہ مجوزہ فیصلہ کے تمام حسن و قبح پر عمل درآمد سے قبل دوبارہ سے سوچ بچار کر لیا جائے۔ تمام ماہرین اور متعلقہ حلقوں سے مشاورت کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ ”گل ویلے دی پھل موسم دا“۔ وقت کی پکار ضرور س±ننی چاہیے۔ جب ب±را وقت چل رہا ہو تو اچھی باتیں بھی تقدیر کا نقشہ بگاڑ دیتی ہیں کیونکہ منظور شدہ سکرپٹ میں ردوبدل یا ترمیم کا کِسی کے پاس بھی اختیار نہیں چاہے کتنی ہی بڑی کرسی پر متمکن ہو۔ ہر انسان میں شر اور خیر کی صفات موجود ہیں اب کِس راستے پر چلنا ہے اس کا اختیار ”اللہ رحمان رحیم کریم“ نے انسان کو دیا۔ کھرب ہا مخلوقات میں سے واحد مخلوق جسکے پاس دائیں یا بائیں جانے کا اختیار ہے۔ کتنی بڑی بات ہے کہ ہر ذی نفس میں گھنٹی والا نظام ہمہ وقت متحرک۔ فعال ہے۔ جب بندہ شر کی طرف جانے کا ارادہ۔ فیصلہ یا عمل کرتا ہے تو دل میں گھنٹی ضرور بجتی ہے اب مٹی کی مورتی پر منحصر ہے کہ وہ آواز پر کان دھرتا ہے یا پھر شیطانی قوتوں کے بہکادے میں بھٹکتا ہوا عدم مفقود ہو جاتا ہے۔

ای پیپر دی نیشن