سیاسی جنگ نہیں بلکہ جنگی سیاست

Mar 17, 2024

ڈاکٹر منور صابر


ڈاکٹر منور صابر
"خود کو گڑھے میں پائیں تو مزید کھودائی بند کر دیں" ،یہ بیان صدر پاکستان کا کہا ہے ۔اب اس بیان کا پاکستان کی سیاست سے کتنا تعلق ہے اور اشارہ کس کس کی طرف ہے ،اس کا تذکرہ تو موضو ع نہیں ہے ،لیکن اس بیان کا بہت ہی گہرا تعلق عالمی سیاست اور کشیدگی سے ضرورہے۔ہمارا موضوع بھی یہی چل رہا ہے کہ عالمی سطح پر ایک غیر اعلانیہ سرد جنگ اتنی تیز ی سے کشیدگیوں کی طرف بڑہ رہی ہے کہ کسی بھی وقت یہ گرم ہو سکتی ہے۔اب دنیا کو بحثیت مجموعی دیکھیں تو یہ ،ماحولیاتی مسائل ،معاشی تنگدستیوں،اور سماجی و نفسیاتی مسائل کے ،تین گڑھوں یا پھر ایک بڑے گڑھے میں میں گر چکی ہے،لیکن خطرناک بات یہ ہے کہ مزید کھودائی اب بھی جاری ہے۔اب سوال یہ ہے کہ اگر مسائل کا گڑھا پہلے ہی بہت گہرا ہو چکا ہے تو مزید کھودائی کیوںکی جا رہی ہے اور کون کر رہا ہے۔اس کا جواب بہت واضح ہے کہ امریکہ کسی بھی طور چین کی بڑھتی ہوئی معاشی طاقت کے بل بوطے پر اس کی بڑھتی ہوئی عسکری یا سیاسی عمل دخل کو روکنا چاہتا ہے۔اس کو یوں بھی کہا جا سکتا ہے کہ امریکہ چین کی شکل میں دنیا کو طاقت کے دو مراکز ،بائی پولر،میں تقسیم نہیں ہونے دینا چاہتا۔
                  جنگی اتحاد اور مراکز 
آپ نے سنا ہو گا کہ جاپان پر اپنی فوج بنانے کی پابندی ہے،تو یہ بہت حد تک ٹھیک ہے ،لیکن یہ اپنی ایک دفاعی فورس ضرور بنا سکتا ہے ،یعنی ایسی فوج جو اپنے اوپر ہونے والے حملے کی شکل میں لڑ سکتی ہے ۔اب اس فورس کی تیاریوں میں بہت تیزی اور وسعت آچکی ہے۔جاپان واضح طور پر امریکہ کی طرف جھکاﺅ رکھتا ہے اور اس کے عسکری اتحاد نیٹو کا واحد ایشیائی ملک بھی ہے۔جاپان کی اہمیت امریکہ کے لئے اس لئے بھی زیادہ ہے کہ یہ امریکہ کو قرضہ دینے والا ایک بڑا ملک ہے،یہ اس قرضے کا ذکر ہو رہا ہے جو امریکہ کے لئے ایک بہت بڑا گڑھا بن چکا ہے اور اس کی قدر 35 ٹریلین کی طرف بڑہ رہی ہے۔یہ کتنا بڑا عدد ہے اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ پوری دنیا کی ایک سال کی کل پیداوار ایک سو ٹریلین ڈالر بنتی ہے ۔اس کا دوسرا اور اصل اندازہ امریکہ کی ایک سال کی کل معاشی پیداوار کی قدر سے بھی لگایا جا سکتا ہے،جو کہ 27 ٹریلین ڈالر ہے۔اب صاف ظاہر ہو گیا کہ تقریبا آٹھ ٹیریلین ڈالر کا فرق بنتا ہے۔اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس قرض میں اتنی تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہ آپ کو اس کی پیمائش کے لئے گھڑی پر ایک سیکنڈکے بھی دس حصے کر نے پڑیں گے ۔مطلب یہ ہے کہ آپ اس گھڑی کو دیکھیں جس پر امریکی قرضہ کے بڑھنے کی رفتار اور مقدار دکھائی جاتی ہے تو آپ اسے ایک سیکنڈ کے حساب سے دیکھ سکتے ہیں اور نہ حساب لاگا سکتے ہیں،البتہ اگر سیکنڈ کے بھی دس حصے کریں تو آپ کو پتہ چلے سکے گا کہ سیکنڈ کے ہر دسویں حصے میں اس قرض میں کتنا اضافہ ہوتا ہے ۔چلیں اس مشکل بات کو مزید واضح کر دیتے ہیں،تو حساب یہ ہے کہ روزانہ کی بنیاد پر امریکہ کے قرضے میں ہانچ بلین دالر کا اضافہ ہوتا ہے ،لیکن ہم صرف پانچ بلیں ہی کا حساب لگا لیتے ہیں،تو ایک گھنٹے میں امریکی قرضے میں 208,333,333 کا اضافہ ہوتا ہے ۔اب اس عدد کو ایک منٹ میں تبدیل کریں تو یہ 3,472,222 بنتا ہے ،اب اس کو فی سیکنڈ میں تبدیل کریں تو یہ57,870 بنتا ہے ۔اب اگر آپ امریکی قرضے کی گھڑی دیکھیں تو ایک سیکنڈ میں کتنے عدد بدلتے ہیں ،حساب نہیں لگایا جا سکتا ۔اب چلتے ہیں سیکنڈ کے دسوے حصے کی طرف تو یہ 5,787 ڈالر بنتا ہے۔اب باقی حساب آپ خود لگا لیں۔امریکی قرضے کی اس قدر تفصیلی بات اس لئے کی گئی کہ یہی وہ معاشی گڑھا ہے جو اب دلدل بھی بن چکا ہے ،لیکن امریکہ اب بھی کسی بھی قیمت پر چین کو روکنا چاہتا ہے۔
جاپان کا ذکر بعد میں جاری رہے گا ،پہلے آپ امریکہ کا جنگی بجٹ دیکھ لیں تو یہ اپنے کل بجٹ کا سولہ فیصد اندرونی اور بیرونی سیکورٹی کے نام پر خرچ کرتا ہے،جبکہ چھ فیصد اس کے ذکر کردہ قرضے کے منافع پر خرچ ہو جاتا ہے۔اب یہ کل ملا کر 22فیصد بن جاتا ہے جو سادہ عدد میں پانچ ٹریلین ڈالر بن جاتا ہے ۔اب اس جنونی خرچ کا ھساب لگائیں تو یہ روزانہ کی بنیاد پر نہیں بلکہ ایک گھنٹے پر تقسیم کریں تو یہ عدد 570,776,255 ڈالر بنتے ہیں ۔اب اس عدد کو اگر آپ فی منٹ میں تبدیل کریں تو یہ 9,512,937 ڈالر بنتا ہے اب رہ گئی بات سیکنڈ کی تو یہ عدد 158,548بنتا ہے۔اب آپ کو اندازہ ہو جانا چاہیئے کہ امریکہ کس طرح پوری دنیا پر حکمرانی کرتا ہے۔حکومتیں بناتا ہے ،گراتا ہے،دنیا کی سوچ اپنے مطابق ڈھالتا ہے ۔لیکن اب مشکل یہ آن پڑی ہے کہ سامنے بھی ایک سپر پاور آچکی ہے ،جس کا نام چین ہے اور ایک ایسی عسکری طاقت آچکی ہے جو امریکی ھاکمیت کو کھلم کھلا چیلنج کر رہی ہے یعنی روس،تو لازم طور امریکہ اب اپنے اتحادیوں کو بھی میدان میں لا رہا ہے۔اب اسی سلسلے میں جاپان کا ذکر ہوا ہے۔جاپان نے اپنی جنگی مشقوں اور مقامات کی تیاری شروع کر دی ہے۔جاپان نے حال ہی میں چین کے قریب چار جزیروںیوناگنی ،اشی گاکی ،اوشیما اور ماگی شیما پر اپنی فوجی کی تعیناتی بڑھانے کے ساتھ عسکری تنصیبات بھی بڑھانا شروع کر دی ہیں۔یہ جزائر چین کے اتنے قریب ہیں کہ یہاں سے چین کو حدف کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔اسی طرح امریکہ نے فلپائین میں مزید جنگی بیس بنانا شروع کر دی ہیں۔یاد رہے صرف جاپان کے گرد امریکہ کی ایک سو سے زائد عسکری بیسز موجود ہیں۔اسی طرح قریب ہی جنوبی کوریا میں بھی امریکی بیسز اور افواج موجود ہیں۔اب جاپان سے لے کر تائیوان،پھر فلپائن،پھر سنگاپور کے جزائر پر مشتمل اس سلسلے کو CHAIN Of ISLAND کہا جا رہا ہے۔
                چین اور ایشیاءہی حدف ہیں
اب جس جنگی ،جزیروں کی دیوار کا ذکر ہوا وہ چین کے مشرق کی جانب ہے،لیکن یہ سلسلہ چین کے مغرب کی طرف بھی جاری ہے ،جہاں سب سے بڑا محاذ بھارت کے ساتھ چین کو ،روس کے بعد دوسرا بڑا زمینی بارڈر لگتا ہے اور سارے کا سارا بارڈر ہی متنازعہ ہے۔اب یہاں چین کے علاوہ میانمار کے ساتھ لگنے والی بھارتی سرحد کشیدہ ہوتی جا رہی ہے۔یاد رہے میانمار بھی ایک چین کی طرف رحجان رکنے والا ملک تصور ہوتا ہے۔چین نے اس ملک میں سے بھی ایک ،سی پیک کی طرز پر ،تجارتی شاہراہ CMECبن رکھی ہے۔اب میانمار والی بھارتی سرحد کے بالکل ساتھ بھارتی ریاست منی پور وہ علاقہ ہے جہاں گذشتہ سال تین مئی سے مسلح کشیدگی جاری ہے۔صورت حال کی سنگینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ گذشتہ دنوں بھارت کے آرمی چیف کا ایک تشویشی بیان بھی آیا تھا ،جو ایک غیر معمولی بات ہے۔اب امریکہ کے بعد جس ملک نے اپنا سب کچھ داﺅ پر لگا رکھا ہے وہ بھارت ہے۔بھارت نہ صرف اپنے پہلے سے گہرے گڑھے کو کھود رہا ہے بلکہ مزید گڑھے بھی کھود رہا ہے۔بھارت کی ریاست منی پور کے علاقے میں کل سات ریاستیں ہیں ،جو تمام کی تما بھارت سے علیحدگی چاہتی ہیں۔ان میں سے سب سے نمایاں ارونا چل پردیش ہے جس کی 1129کلو میٹر لمبی سرحد چین کے ساتھ ملتی ہے۔اہم تین بات یہ ہے کہ چین اس ریاست میں بدستور اپنے زیر اثر علاقے کو بڑھا رہا ہے۔نکسل باری تحریک جو سو سے زائد ضلعوں میں موجود ہے ،مقبوضہ کشمیر ،اور بھارتی پنجاب میں سکھوں کی تحریک خالصتان اس کے علاوہ ہیں۔نکسل باری تحریک کے متعلق اہم بات یہ ہے کہ اس تحریک کے لوگ چین کے بانی ماﺅ زے تنگ کے ماننے والے ہیںاور اپنی تحریک کو لال سلام کے نام سے پکارتے ہیں۔اب دیکھیں دنیا کی طاقتیںکب مزید گڑھے کھودنا بند کرتی ہے
                 

مزیدخبریں