بلا امتیاز… امتیاز اقدس گورایا
imtiazaqdas@gmail.com
تین رمضان المبارک کو روسی صدر ولا دی پوٹن کی جانب سے یورپ اور امریکی حمایت یافتہ ممالک کو جوہری جنگ کی دھمکی نے دنیا بھر کے سنجیدہ معاشروں کو مخمصہ کا شکار کردیا۔ امن پسند حلقے حیران ہے کہ ذمہ دار ملک کے ''ذمہ صدر'' بھی عالمی امن سے متصادم سوچ کا اظہار کرسکے ہیں۔ غزہ المیہ کے بعد روسی صدر کی دھمکی کو رواں برس کی سب سے بڑی او رغیر معمولی سرگرمی کے طور پر لیا جارہا ہے، اس ساری صورت حال کا تکلیف دہ پہلو اقوام متحدہ کی خاموشی اور سلامتی کونسل کا کا تجاہل عارفانہ ہے۔7 اکتوبر 2023ءکو ظالم اسرائیل نے فلسطین پر جارحیت کی ابتداءکی۔ 131 دن گزر گئے اسرائیلی فوج کی مسلسل اور وحشیانہ بمباری سے 39 ہزار مسلمان جام شہادت نوش کر چکے جن میں 16 ہزار ننھے فرشتے بھی شامل ہیں۔معذور ہونے والوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ بی بی سی نے بتایا کہ پورا غزہ قبرستان بن چکا ہے۔ شہر کے ہسپتالوں میں زندگی کو امن اور علاج میسر نہیں، عالمی عدالت کی دھائی اور امن پسندوں کے عالمگیر احتجاج کے باوجود اقوام متحدہ نیند سے بیدار ہوئی نہ سلامتی کونسل اراکین تک معصوم فلسطینیوں کی آواز حق پہنچی… امریکہ کی جانب داری کھل کر سامنے آگئی اب دنیا ''سپرپاور'' کے منافقت سے پوری طرح آشناءہو گئی۔ ایک طرف وہ غزہ کے مظلوموں کو امداد دیتا ہے اور دوسری طرف اسرائیل کے حق دفاع کی حمایت اور طرف داری سے اپنے دوسرے چہرے کو نمایاں کرتا ہے۔ نیویارک' برطانیہ' جرمنی ' ناروے' آسٹریلیا' روس' ترکی' ایران اور کینیڈا میں اسرائیل اور امریکہ مخالف مظاہرے بڑی طاقتوں کو آئینہ دکھاتے رہے افسوس مظلوموں کے لیے اظہار یکجہتی کی ریلیاں اقوام متحدہ کی توجہ حاصل نہ کرسکیں اور تو اور ویٹو پاور کے حامل ممالک بھی مظلوم کی حمایت میں ایک بیچ پر نہ آسکے،یہاں بھی امریکہ بار بار جنگ رکوانے کی مخالفت کرتا رہا!!
امریکہ کی بے جا طرف داری نے اسرائیل کے حوصلہ اس قدر بلند کردئیے کہ وہ جارحیت روکنے کی طرف آتا نہیں۔گو پس پردہ حماس اور اسرائیل میں جنگ بندی کے لیے کوششیں کی جارہی ہیں یقیناً کچھ دن میں بڑی خبر سامنے آنے والی ہے یقینا امن کی طرف پیش قدمی کی ہر کوشش کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا '' وقت یہ بھی گزر جائے گا'' مگر مہذب دنیا امریکہ کا دوہرا کردار فراموش نہیں کر پائے گی امریکہ کو آنے والے وقتوں میں اپنے اس ''انصاف پسند'' کردار کی بھاری قیمت دینا پڑے گی۔
یادش بخیر… روس یوکرائن تنازعہ اپنے عروج پر تھا، بڑی طاقتوں نے معاملہ سرد کرنے کی بجائے تنازعہ کو مزید ہوا دی جس کا نتیجہ 24 فر وری 2022ءمیں یوکرائن پر روسی حملے کی صورت میں نکلا۔بات غیر ملکی مداخلت سے شروع ہوئی جو بڑھتے بڑھتے روس یوکرائن جنگ پر منتج ہوئی۔آج بھی بیرونی مداخلت جاری ہے دوسروں کے معاملات میں اپنی مرضی تھونپے اور صرف اپنے ہی مفادات کا تحفظ کرنے کی پالیسی سے امن قائم نہیں ہوتھا یہی وجہ ہے کہ کچھ دوستوں کے ایماءپر پولینڈ نے اپنے فوجی یوکرائن بھیجنے کا اعلان کیا جس کے جواب میں روسی صدر کو کہنا پڑا ''پولینڈ نے اگر اپنے فوجی یوکرائن بھیجے تو وہ زندہ واپس نہیں لوٹیں گے'' ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ بڑی طاقتوں کو اپنے لئے ''بڑا کردار'' منتخب کرنا چاہیے وہ بڑا کردار بھلائی اور قیام امن کا ہونا چاہیے۔ لگتا ہے کہ بڑی طاقتیں جانبدارانہ کردار سے خود کو چھوٹا ثابت کرنے کی روش پر چل پڑی ہیں۔
روس کی طرف سے ایٹمی جنگ کی دھمکی؟
Mar 17, 2024