مروہ خان میرانی
marwahkhan@hotmail.com
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم رمضان داخل ہونے سے پہلے اللہ تعالی سے دعا فرمایا کرتے تھے کہ انہیں رمضان تک پہنچا دے۔ پھر جب رمضان داخل ہوجاتا تو اللہ تعالی سے دعا فرماتے کہ وہ انہیں اس میں عمل صالح کرنے میں مدد فرمائے۔ اور جب رمضان ختم ہوجاتا تو دعا فرماتے کہ ان کے یہ اعمال بارگاہ الہی میں شرف قبولیت پاجائیں۔ جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے:
"(اور جو لوگ (اللہ کی راہ میں) دیتے ہیں جو کچھ دیتے ہیں مگر اس کے باوجود ان کے دل کپکپاتے ہیں کہ وہ اپنے رب کی طرف لوٹنے والے ہیں، یہی ہیں جو بھلائیوں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی ہیں جو ان کی طرف سبقت کرنے والے ہیں)۔ (المو¿منون: 60-61)
یعنی وہ عمل میں خوب محنت کرتے تھے پھر بھی عمل کرلینے کے بعد انہیں فکر لاحق ہوتی کہ آیا یہ قبول بھی ہوا کہ نہیں؟
ہر مسلمان کو خوش قسمتی سے ماہ رمضان نصیب ہو جائے تو اسے اس طرح سے گزارنا چاہیے کہ جیسے یہ اس کی زندگی کا آخری رمضان ہے۔ یہ خیال ذہن میں رکھنے سے انسان رمضان کی رحمتوں اور برکتوں کو حاصل کرنے کے لیے دن رات خوش و خشوع کے ساتھ عبادت کرتا اور نیکیاں بٹورنے میں مصروف رہتا ہے۔ نبی کریم ﷺ "اللہ کے حبیب اللہ" ، جو کہ سخاوت میں ویسے ہی بے مثال ہے رمضان میں اپنی سخاوت کی انتہا کر دیتے تھے۔ اور "سخی حبیب اللہ" ان کے وجود کی صفت ہر سو نظر آنے لگتی تھی۔
رمضان کریم شروع ہوتے ساتھ ہی ہمارا "سنہری وقت" کا آغاز ہو جاتا ہے، ہر چھوٹی سی جھوٹی نیکی بھی ہمیں 700 گنا زیادہ اجر و ثواب حاصل کرنے کا ذریعہ بن جاتی ہے۔جس کو ہم "گولڈن پیریڈ" بھی کہہ سکتے پورے 30 دنوں کا۔
حضرت ابوہریرہ رضہ سے روایت ہے کہ رسول سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور رمضان میں آپ کی سخاوت بے انتہا بڑھ جاتی تھی۔ رمضان کی ہر رات میں جبرائیل علیہ السلام آپ سے ملاقات کرتے تھے اور آپ ان کو قرآن مجید سناتے تھے۔
جب جبرائیل علیہ السلام، حضور ﷺسے ملاقات کرتے تھے تو آپ اس ہوا سے بھی زیادہ سخی ہو جاتے تھے جو بارش لے کر بھیجی جاتی ہے"۔ (بخاری و مسلم)
حضرت ابن عباس رضہ نے فرمایا کہ: "جب رمضان داخل ہوتا تھا تو حضور اقدس ہر قیدی کو چھوڑ دیتے تھے اور ہر سائل کو عطا فرماتے تھے"۔ (بیہقی)
اس حدیث مبارکہ کا مطلب یہ ہے کہ آپ یوں ہی عام حالات میں کسی سائل کو محروم نہ فرماتے تھے مگر رمضان میں تو اس کا اہتمام مزید بڑھ جاتا تھا۔
رمضان کریم میں ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ ہمیں کسی سائل کو خالی ہاتھ نہ لوٹائیں۔ حضور کریم ﷺ نے اپنی حیات طیبہ میں کسی کو "نہ" نہیں فرمایا۔ جب کوئی آپ کے سے سوال کرتا تو آپ کچھ نہ کچھ اس کو ضرور عطا فرماتے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر انسان کے پاس کبھی کچھ دینے کے لیے نہیں ہو اور سائل سوال کرے تو ایسی صورت میں کیا کرنا چاہیے۔
جب کوئی شخص حضور اقدس کریم کے پاس تشریف لاتا اور آپ کے پاس دینے کے لیے کچھ نہ ہوتا تو آپ اس کے حق میں دعا کر دیتے تھے۔ اور دعا سے زیادہ بہترین تحفہ اور کیا ہو سکتا ہے؟؟ لہذا اگر ہمارے پاس کوئی ایسا شخص آئے جس کو ہم کچھ نہ عطا کر سکتے ہوں تو ہمیں ان کے حق میں دعا دے دینی چاہیے۔
اس کے علاوہ جو سب سے بڑا مسئلہ ہمیں درپیش آتا ہے وہ یہ کہ اکثر و بیشتر ہمیں کوئی فقیر یا مانگنے والا ایسا ملتا ہے جو کہ حقدار نہیں ہوتا مثال کے طور پہ گاڑی چلاتے وقت اشاروں پر سوال کرنے والے گداگر وغیرہ وغیرہ۔ تو ان کے ساتھ ہمارا سلوک کیسا ہونا چاہیے۔
اس مسئلے کا حل بھی حدیث کی روشنی میں ہمارے پاس ہے۔۔ فرمایا "رسول اکرم ﷺ نے (صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو خطاب کرتے ہوئے)
کیا تم کو وہ شخص نہ بتا دوں جس کا مرتبہ لوگوں میں سب سے برا ہے؟ عرض کیا گیا: جی ہاں! ارشاد فرمائیے۔ فرمایا:
یہ وہ شخص ہے جس سے "اللہ" کے نام پر سوال کیا جاتا ہے اور وہ نہیں دیتا"- (احمد ابنِ عباس)
یعنی کہ اگر کوئی شخص اللہ تعالیٰ کے نام پہ مانگ لے تو ہمیں چاہیے کہ ہمیں اس کو عطا کریں یہ سوچے سمجھے بغیر کہ وہ حقدار ہے یا وہ ناجائز مطالبہ کر رہا ہے۔
کسی بزرگ کا کیا خوبصورت واقعہ ہے کہ جب وہ کسی سائل کو دے رہے تھے تو لوگوں نے فرمایا کہ یہ شخص دھوکے باز ہے آپ اس کو کیوں دیتے ہیں۔ اس بزرگ ہستی نے جواب دیا کہ مجھے "اللہ کی راہ میں دھوکا کھانا بھی پسند ہے"- اللہ اکبر!
اللہ رب العزت قرآن پاک میں فرماتا ہے:
"اور نہ سوال کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ" (سورہ دوحہ, آیت: 10)-
سوال کرنے والے کو جھڑکنے کی بجائے احسان طریقے سے معذرت کر لینی چاہیے۔
دین اسلام تو اتنا آسان اور احسن ہے۔ کہ آپ کا چھوٹی سی نیت اور عمل آپ کے لیے خیر اور رحمت کا بے تحاشہ ذریعہ بن جاتا ہے۔ حضرت ابو موسی اشعری رضہ سے روایت ہے کہ سرکار دو عالم کے پاس جب کوئی سائل یا صاحبِ حاجت آجاتا تو فرمایا کرتے تھے کہ تم مجھ سے سفارش کر کے ثواب میں شریک ہو جایا کرو اور اللہ تعالی اپنے رسول کی زبان سے جو چاہے فیصلہ کر دے مطلب یہ ہے کہ تم سفارش کر کے ثواب لیا کرو"- (بخاری)
اللہ سبحانہ و تعالی اس ان سخاوت کے مہینے میں سخی حبیب کے نقش قدم پر چل کے ایک سخی امتی بننے کی توفیق عطا فرمائے۔ فرمایا نبی کریم ﷺنے:
"وہ شخص بڑا ہی بد نصیب ہے جس نے رمضان کا مہینہ پایا لیکن اس کی بخشش نہ ہوئی۔ اگر اس کی اس (مغفرت کے) مہینہ میں بھی بخشش نہ ہوئی تو (پھر) کب ہو گی؟“
اس حدیث کو امام ابن ابی شیبہ اور طبرانی نے روایت کیا ہے۔
اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں رمضان بہترین ادب و احترام کے ساتھ بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تاکہ ہم آخرت میں اس کا عظیم اجر ثواب پا سکیں۔ اور وہ اجر ہے
رسول ﷺ نے ارشاد فرمایا:
"جس نے میرے کسی امتی کی حاجت پوری کر دی تاکہ اس کو خوش کرے اس نے مجھے خوش کیا اور جس نے مجھے خوش کیا اس نے اللہ کو خوش کیا اور جس نے اللہ کو خوش کیا اللہ اس کو جنت میں داخل فرمائے گا"- (مسلم)