مطلوب احمد وڑائچ
matloobwarraich@yahoo.com
قائداعظم کے بعد پاکستان میں دوتین لیڈر ہی عالمی شہرت کے حامل پیدا ہوئے۔ ان میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو سرفہرست ہیں لیکن دونوں کو جس طرح بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا اس کی مثال پوری دنیا میں نہیں ملتی۔ان کے اقتال کے بارے میں جان کر تاریخ شرما جاتی ہے۔ بے نظیر بھٹو دہشت گردی میں شہید کر دی گئیں جبکہ ذوالفقار علی بھٹو کو جس طرح سے عدالت کی طرف سے پھانسی کی سزا سنائی گئی وہ بھی دہشت گردی ہی کی ایک بھیانک مثال ہے۔ جیالوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے قتل پر اپنا خونِ جگر دے کر احتجاج کیا تھا۔کئی جیالے خودسوزی کر گئے، کئی کو کوڑے مارے گئے، کئی کو پھانسی کے تختہ پر لٹکا دیا گیا۔تاہم جیالوں کی طرف سے ذوالفقار علی بھٹو کے لیے انصاف کی جدوجہد جاری رہی جو بالآخر کسی حد تک اب جا کر 2024ئ میں ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے پچاس سال بعد منطقی انجام تک پہنچی ہے۔ بعداز قتل یا بعداز مرگ اور شہادت ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف دلانے کے لیے سب سے زیادہ جدوجہد کرتی ہوئی بے نظیر بھٹو نظر آئیں۔ ان کو دو مرتبہ ایسی کمزور حکومت دی گئی کہ وہ قانون سازی کر سکی نہ عدالتوں سے رجوع کر سکیں۔ان کی دونوں بار حکومت قبل از وقت توڑ دی گئی عدالتیں اور ادارے ان کے خلاف خم ٹھونک کر کھڑے نظر آئے ایسے میں وہ اپنے باپ کو انصاف دلاتی تو کیسے دلاتیں۔عدالتوں کا رویہ ذوالفقار علی بھٹو کی طرح پیپلزپارٹی کے ساتھ بھی دوہرے معیار رہا ہے۔ خصوصی طور پر جب تک بے نظیر بھٹو زندہ رہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو کی اصل لیگیسی تو بے نظیر بھٹو تک تھی اس کے بعد آصف علی زرداری اس کے وارث ٹھہرے۔وہ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے بعد دو دفعہ اقتدا رمیں آئے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کو جس طرح سے انصاف چاہیے تھا اس طرح سے انصاف نہ دلوا سکے۔ سندھ میں تو خیر پیپلزپارٹی 18سال تک مسلسل اقتدار میں رہی۔ اب پھر ایک بار اقتدار میں آ گئی ہے۔ عوام کے لیے اس پارٹی کی طرف سے کیا کیاگیا ہے، جیالوں کی اس پارٹی نے کس حد تک اشک شوئی کی، خصوصی طور پر معاملات بے نظیر بھٹو کے بعد آصف علی زرداری کے ہاتھ میں آنے کے بعد،عوام کے لیے انہوں نے کچھ کیا ہوتا تو 2008ءسے 2013ءتک یہ اقتدار میں رہے ،ان کی مرکز میں ایک بار پھر حکومت بنتی لیکن ناکامیوں کی داستان جو 2008ءمیں اقتدار میں آنے کے بعد شروع ہوئی تھی وہ ابھی تک ختم نہیں ہوئی تاہم یہ کریڈٹ ضرور میرے سابق دوست آصف علی زرداری کو جاتا ہے کہ انہوں نے سپریم کورٹ میں گو کہ افتخار چوہدری کو دباﺅ میں لانے کے لیے ہی یہ کیس درج کیا تھا تاہم اس میں پیش رفت کبھی ہوتی ،کبھی ر±ک جاتی، تاہم قاضی فائز عیسیٰ کی طرف سے اس کیس کو ٹیک اپ کیا گیا اور 9 رکنی بنچ بنا دیا گیا، لگتا تو یہی تھا کہ ایک بار پھر معاملہ التوا کی طرف چلا جائے گا لیکن قاضی فائز عیسیٰ کے اس 9رکنی بنچ کی طرف سے چندسماعتوں کے بعد ہی فیصلہ سامنے آ گیا گو کہ ذوالفقار علی بھٹو کوجس طرح سے جیالے انصاف ملنے کی توقع کر رہے تھے اس طرح تو نہیں ملا لیکن جتنا ہی انصاف ملا اس کو بھی غنیمت جاننا چاہیے۔ بنچ کی طرف سے واضح طور پر کہا گیا کہ ذوالفقارعلی بھٹو کو سزائے موت غیرآئینی اور غیر قانونی طور پر دی گئی۔عدالت کا یہ فیصلہ غیرآئینی اور غیر قانونی تھا۔ جب یہ تسلیم کر لیا گیا کہ فیصلہ غیرآئینی اور غیر قانونی ہے تو ایسے فیصلے کو کالعدم قرار دینے میں ایک لمحے سے زیادہ نہیں لگنا چاہیے تھالیکن سزائے موت کے فیصلے کو کالعدم قرار نہیں دیا گیا۔
میں سمجھتا ہوں کہ جو بھی فیصلہ آیا ہے اس سے ہر جیالا میرے سمیت سرخرو ہوا ہے میں اپنے آپ کو سب سے زیادہ سرخرو ہونے والوں میں سمجھتا ہوں اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے ایک کتاب لکھی تھی ”صدیوں کا بیٹا“اور میرا اس کتاب لکھنے کا مطمع نظر اور اس سے پہلے زندگی کا مقصد ہی یہی تھا کہ ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف دلایا جائے۔ میرے کالم اس بات کے گواہ ہیں کہ میں نے دنیا کے ہر پلیٹ فارم پر جدوجہد کی، کوشش کی کہ ذوالفقار علی بھٹو کو انصاف ملے ،ان کی سزائے موت کا خاتمہ کیا جائے۔ ججوں کی طرف سے جس طرح سے نسیم حسن شاہ نے اعتراف کیا گیا تھا کہ یہ فیصلہ ہم نے دبا? پر کیا ،اس کے بعد کوئی گنجائش نہیں رہ جاتی تھی کہ اس فیصلے کو غیرقانونی ، غیرآئینی قرار دیا جائے اور اس کے ساتھ ساتھ اس کو کالعدم بھی قرار دیا جائے۔ میری جدوجہد کا ایک مرحلہ مکمل ہو گیا، میں نے ”صدیوں کا بیٹا“ کتاب لکھی تھی لیکن دوسرے مرحلے کا آغاز آج سے ہو رہا ہے، اس فیصلے کے بعد سے ہو رہا ہے، جس میں سپریم کورٹ کے فیصلے کو غیرآئینی اور غیرقانونی قرار دیا گیا ہے۔میری جدوجہد کا اب مقصد یہ ہوگا کہ ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت ختم کی جائے ، جب ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت ختم ہو جائے گی تو میں سمجھوں گا کہ میں اپنے مقصد میں مکمل کامیاب ہو گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کو کماحقہ انصاف مل گیا۔
قارئین! گزشتہ روز سابقہ صدر آصف علی زرداری صاحب نے ایک دفعہ پھر منصب صدارت سنبھال لیا ہے۔ پوری دنیا کے سیاست دان، تجزیہ نگار اور ڈپلومیٹس حیران ہیں کہ دھاندلی کی گونج کے باوجود بھی تین سو بہتر سیٹوں میں سے صرف چالیس سیٹیں جیتنے والی پارٹی کا صدر بھی بنے گا۔ وزیر داخلہ، وزیر خزانہ اور چیئرمین سینٹ سمیت چاروں صوبوں کے گورنرز بھی یہی پارٹی نامزد کرے گی۔ واقعی اسے کہتے ہیں سیاست میں جوڑ توڑ کا بے تاج بادشاہ صرف آصف علی زرداری صاحب ہی ہیں۔قارئین! زرداری صاحب کے حلف اٹھاتے ہی مجھے سوشل میڈیا پر دوستوں کی جانب سے تہنیتی پیغامات موصول ہونا شروع ہو گئے۔ کچھ طنزیہ،کچھ شرارتی اور کچھ نیم مزاحیہ کہ وڑائچ صاحب آپ کے دوست ایک دفعہ پھر ملک کے صدر منتخب ہو گئے ہیں، مبارک باد قبول کیجئے۔ بہت سے دوستوں کو جواب نہیں دیا، لیکن بہت سوں کو اِگنور کرنا ممکن نہیں تھا ،انہیں مختصر جواب دیا ”ہاں میں اس جرم کا کلیدی ملزم ہوں اس لیے مجھے اور میرے شریک ملزمان کو قرار واقعی سزا دی جائے تا کہ آئندہ اگر آپ کسی ضرورت مند، مصیبت زدہ پہ احسان کرو تو اس کی نسل ضرور دیکھ لو، پرکھ لیں !“ بوجھل دل کے ساتھ رب العزت سے استدعا ہے اور عاجزانہ دعا ہے کہ میرے وطن پہ چھائے آزمائشوں کے بادل اب جلد چھٹ جائیں کہ یا رب ہم تیرے گناہ گار بندے ہیں ہمارے اعمالوں کی سزا ہماری سوہنی دھرتی کو مت دینا میرے رب۔ثم آمین!