چوہدری منور انجم
نقطہ نظر
پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی جناب ذولفقار علی بھٹو بلا شعبہ اور بلا شرکت غیرے اس ملک کے مقبول ترین لیڈر تھے وہ پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم تھے انہوں نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کی جدو جہد میں اپنی جان جان آفرین کے سپرد کی مگر اصولوں پر کوئی سودے بازی اور سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ چاہتے تو جیل سے ایک آواز نکالتے پورا پاکستان ان کی رہائی کی لئے امڈ پڑتا۔ مگر وہ اس ملک کے قانون، انصاف اور عدالتوں کا احترام کرتے ہوئے پر اعتماد تھے کہ انہیں انصاف ملے گا۔ لیکن اس وقت کے ناآعاقبت اندیش ججوں نے ایک آمر کی دی ہوئی مراعات اور خوف سے ان کو سزاے موت دے دی۔ان کے ساتھ جیل میں کیا کچھ ہوا ان کی میت کس حال میں ان کی آخری آرمگاہ پہنچائی گئی ان کے خاندان کے ساتھ دور آمریت میں کس قدر ظلم جبر اور نا انصافی برتی گئی اور اس پر اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اگر تاریخ کی کتابوں سے بھٹو شہید اور ان کے خاندان کا زکر نکال دیا جاے تو پاکستان کی اب تک کی تاریخ بانجھ قرار پائے۔آفرین ہے ان کے خاندان کے افراد پر انہوں نے بھی کبھی ریاست پاکستان کے کسی بھی ادارے اور فرد کے خلاف کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھایا حالانکہ متعدد بار حکومت بھی ملی،یہ وضع دار قانون کی حاکمیت،جمہوری تسلسل اور پارلینمنٹ کی بالادستی پر یقین رکھنے والے لوگوں کا ایسا کنبہ ہے جس کی دنیا بھر میں توقیر کی جاتی جاتی ہے۔ یہ عزت شرف اور تکریم خدا جس کو دے۔قدرت کا انصاف دیکھے کچھ مردے اپنی موت کے بعد تکریم سے محروم ہوئے اور جسے ناحق قتل گیا وہ آج شہید ٹھرا۔پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے انصاف کی آبرو بچا لی اس کیس کے حوالے سے بھی بہت کچھ لکھا گیا لکھا جارہا ہے اور لکھا جاتا رہے گا، لیکن پاکستان کے ایک موقر اور معتبر اخبار کا ادرایہ اپنے منفرد اسلوب کی پہچان رکھتے ہوئے لکھتا ہے کہ پاکستان کی پیچیدہ تاریخ میں بہت سے مقدمات ایسے رہے ہیں جنہیں حل نہیں کیا گیا، حتمی فیصلہ دے کر انہیں بند نہیں کیا گیا کیونکہ قوم بالخصوص ادارے ان واقعات کے پیچھے چھپا ’پورا سچ‘ تلاش کرنے میں ناکام رہے۔ 1977ء میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کی حکومت کی برطرفی اور 1979ءمیں ان کی پھانسی بھی اسی فہرست میں شامل ہے۔ان دونوں اہم ترین واقعات نے پاکستان کی تاریخ کی سمت تبدیل کردی جبکہ ان کے اثرات ابھی تک ہمارے نظام پر مرتب ہورہے ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید مقدمے کے حوالے سے آنے والا سپریم کورٹ کا فیصلہ ملک کی قانونی اور سیاسی تاریخ میں ایک اہم سنگ میل ہے۔
سپریم کورٹ، 2011ءمیں اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کی جانب سے دائرکردہ ریفرنس کی سماعت کررہی تھی جس میں ذوالفقار علی بھٹو شہید کی سزائے موت پر عدالت سے رائے طلب کی گئی۔18مارچ 1978ءمیں بانی پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کو لاہور ہائی کورٹ کے بینچ نے محمد احمد خان قصوری کے قتل کا مجرم قرار دیا تھا۔6 فروری 1979 کوچار،تین سے سپریم کورٹ کے فیصلے میں، لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا گیا تھا جس کے بعد پاکستان کے پہلے منتخب وزیراعظم کو پھانسی دینے کی توثیق ہوگئی تھی۔یہ مدنظر رکھتے ہوئے کہ قانون میں ایسا کوئی طریقہ کار نہیں جس میں اصل فیصلے کو تبدیل کیا جاسکے، چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے مختصر فیصلے میں ریمارکس دیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے میں لاہور ہائی کورٹ کے ٹرائل اور سپریم کورٹ کی اپیل نے ’منصفانہ ٹرائل اور انصاف کے عمل کے بنیادی تقاضوں کو پورا نہیں کیا‘۔ سپریم کورٹ کی آبزرویشن نے اس نقطے کی توثیق کی جو قانونی ماہرین کئی دہائیوں سے کہہ رہے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کی سزا عدالتی انصاف کے لیے مضحکہ خیز ہے اور جیسا کہ ان کی پارٹی نے کہا کہ یہ ایک ’عدالتی قتل‘ ہے۔یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے کہ 4 دہائی پرانے مقدمے کو کیوں چھیڑا گیا جبکہ ناانصافی تو آج بھی جاری ہے۔ شاید ذوالفقار علی بھٹو کیس کے فیصلے پر نظرثانی کرنا انہیں ناانصافیوں کی وجہ سے برمحل ہے۔ اس مقدمے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کے مقبول ترین اور منتخب وزرائے اعظم کی بھی تذلیل کی جا سکتی ہے، انہیں جیل بھیجا جا سکتا ہے حتیٰ کہ جب ریاست چاہے تو انہیں پھانسی گھاٹ تک پہنچا سکتی ہے۔ ساتھ ہی یہ یاد دہانی ہے کہ قانونی نظام کو طاقتور قوتوں کی خواہش کے مطابق ڈھالا جا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ چیف جسٹس نے مختصر حکم میں کہا کہ ’خود احتسابی کے جذبے کے تحت، ماضی کی غلطیاں تسلیم کیے بغیر درست سمت میں آگے نہیں بڑھا جا سکتا’۔خود ساختہ احتساب کی ضرورت عدلیہ، اسٹیبلشمنٹ اور سیاسی طبقہ سمیت تمام اداروں کو ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے مقدمے پر سپریم کورٹ کی آبزرویشن اس حقیقت کی تصدیق کرتی ہے کہ نظریہ ضرورت کے تحت ماضی میں ریاستی ستونوں نے اس آئین کو کمزور کرنے میں کردار ادا کیا جس کے تحفظ کا انہوں نے حلف اٹھایا تھا۔اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو شہید کے ساتھ ہونے والی سنگین ناانصافی کا ازالہ تو نہیں ہوسکتا لیکن ریاستی ادارے یہ عہد ضرور کرسکتے ہیں کہ وہ ملکی تاریخ کے اس تاریک باب میں کی گئی غلطیوں کو دوبارہ نہیں دہرائیں گے۔
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد سندھ اسمبلی اور پنجاب اسمبلی نے بھاری رائے سے ذوالفقار علی بھٹو کو سرکاری شہید اور قومی ہیرو قرار دینے کی قرارداد منظور کر لی گئی۔ جبکہ قومی اسمبلی نے بھی سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو شہید کی سزائے موت کو غیر قانونی قرار دینے کی قرارداد کثرت رائے سے منظور کرتے ہوئے، قرارداد میں ذوالفقار علی بھٹو کو سرکاری طور پر شہید قرار دینے اور قومی جمہوری ہیرو قرار دیا دینے کے علاوہ اعلیٰ ترین سول ایوارڈ نشان پاکستان بھی دیا جائے۔ اس کے علاوہ ملک میں جمہوریت کو فروغ دینے کے لیے جان قربان کرنے والے کارکنان کو نشان ذوالفقار علی بھٹو ایوارڈ دیا جائے اور اعلیٰ ترین سول ایوارڈ نشان پاکستان بھی دینے کا مطالبہ کیا گیا ہے جسے قومی اسمبلی کو منظور کرنا چاہیے۔ اس سے قبل بھی سندھ اور پنجاب اسمبلی سے بھی اسی طرح کی قراردادیں منظور ہو چکی ہیں۔ پنجاب اسمبلی میں بانی پیپلزپارٹی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو سرکاری طور پر شہید اور قومی و جمہوری ہیرو قرار دینے کی قرارداد کو کثرت رائے سے منظور کر لیا گیا تھا۔جبکہ سندھ اسمبلی میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو شہید کو قومی ہیرو قرار دینے اور بحالی جمہوریت کیلئے عظیم قربانیاں دینے پر سیاسی کارکنوں کو نشان بھٹو سے نوازے جانے کی قرار داد منظور کی گئی تھی۔
ہم سمجھتے ہیں کہ بھٹو شہید سمیت ان کے خاندان کے ساتھ ہونے والے ظلم جبر اور زیادتیوں کا ازالہ تو ممکن نہیں لیکن قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں منظور ہونے والی قراردادوں سے کچھ اشک سوئی ہو سکتی ہے اس کے ساتھ ہی ہم یہ مطالبہ بھی کرتے ہیں کہ پاکستان پوسٹ بھٹو شہید کے نام پر ایک اعزای ٹکٹ اور سٹیٹ بنک آف پاکستان ایک اعزازی نوٹ بھی جاری کر کے اس عظیم لیڈر کو خراج تحسین پیش کرے۔
ذولفقار علی بھٹو قومی ہیرو اور شہید قرار
Mar 17, 2024