تخلیق ایوارڈ اور حلقہ اربابِ ذوق

Mar 17, 2024

بیدار سرمدی




یہ دو اہم تقاریب اور بہت سے بلند مقام لکھاریوں کے خیالات کی خوشبو کا تذکرہ ہے۔ ماہنامہ تخلیق کی ہر سال کی طرح اس سال کی سب سے بڑی تقریب تخلیق ایوارڈ کے حوالے سے تھی۔ دوسری تقریب حلقہ ارباب ذوق کے سالانہ اجلاس کی تھی۔ دونوں کے انعقاد کے لئے بہت خاص مقامات کا انتخاب کیا گیا تھا۔حلقہ ارباب ذوق کے سالانہ جلسے کے لئے اس بار گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کے پطرس بخاری ہال کے تاریخی در و دیوار بھی حلقے کے اراکین کی طرح گوش بر آواز تھے۔اس ضمن میں یونیورسٹی کے شعبہ اردو کی سربراہ ڈاکٹر صائمہ ارم نے خصوصی تعاون کیا۔ سیکرٹری حلقہ میاں شہزاد اپنی سال بھر کی کاوشوں سے آگاہ کرنے اور نئے منتخب سیکرٹری کو چارج دینے کی رسم کی ادائیگی کے لئے سٹیج سجا چکے تھے۔
 سٹییج پرتقریب کے صدر ڈاکٹر سعادت سعید جنہیں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی طر ف سے لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ بھی مل چکا ہے، کے ساتھ نو منتخب سیکرٹری حلقہ ارباب ذوق نواز کھرل اور گزشتہ برس کی مجلس عاملہ کے ارکان ڈاکٹر ضیا الحسن، ڈاکٹر لطیف ساحل، ڈاکٹر امجد طفیل، عامر فراز اور آفتاب جاوید بھی گزشتہ برس اور نئے سال کے لئے بھی جائنٹ سیکرٹری محمد احمد کے ساتھ کرسی نشیں تھے۔میاں شہزاد نے منجھے ہوئے انداز میں گزشتہ برس کی کارکردگی کا تذکرہ کیا۔ خصوصی شاموں تقاریب اور معمول کے اجلاسوں میں پڑھی جانے والی تخلیقات کا ذکر کیا اوربتایا کہ ان کی کاوش سے کیسے کیسے بڑے قد کے لکھاری حلقہ ارباب ذوق کی تنقیدی روائت کو آگے بڑھانے کے لئے آتے رہے۔ نو منتخب سیکرٹری نواز کھرل جو یہاں بھی مرکزنگاہ تھے اور تخلیق ایوارڈ کی نظامت کے وقت بھی اپنے جوہر گویائی سے سب کو قائل کر چکے تھے کچھ دن پہلے حلقہ ارباب ذوق کی 83 سالہ تاریخ میں پہلی بار 144 ووٹوں کی اکثریت سے یعنی 245 ووٹوں میں سے 189 ووٹ لے کر منتخب ہوئے تھے اور اپنے مد مقابل سلمان رسول کو اپنے گلے کے تمام ہار پہنا کر اصل جمہوری روائت عام کر کے اہل سیاست کو اچھا پیغام دے چکے تھے ، یہاں پطرس بخاری ہال میں جب سٹیج پر آئے تو آنے والے برس کے لئے کئی وعدوں سے لیس تھے۔اس برس حلقہ کے سالانہ انتخابات کے موقع پر جو میلے کا سماں تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ان کا دورحلقہ کےلئے بڑی تبدیلیوں کا دور ثابت ہو گا۔ اب حلقے کے تمام سابق سیکرٹریوں کی مشاورت سے مثبت تبدیلیاں لا کر اہل قلم کو حلقہ کے اجلاسوں کی طرف مائل کیا جائے گا۔ ہر ہفتے کا شیڈول ہرممبر کو وٹس اپ کیا جائے گا حلقے کی ویب سائٹ کو متحرک اور اپ ٹوڈیٹ کیاجائے گا۔ٹی ہاﺅس میں ماحول کو پرکشش اوراراکین کو کارڈ جاری کرکے کم قیمت پر سروسز کی فراہمی کو یقینی بنایا جائے گا۔ماضی کے تمام ریکارڈ کو بھی محفوظ کیا جائے گا اور تخلیقات کی اشاعت کی پرانی روائت کوبھی زندہ کیا جائے گا۔ ہر مہینے ایک خصوصی اجلاس اور تین معمول کے مطابق تنقیدی اجلاس ہوا کریں گے۔سالانہ اجلاس میں حسب توقع ڈاکٹر سعادت سعید کا صدارتی خطبہ بھی بھی فکرانگیز تھا۔ جسے بک ڈائجسٹ کے اور ادب لطیف کے ایڈیٹر ، کتاب ورثہ والے معروف ادیب مظہر سلیم مجوکہ نے کتابی سائز میں چھپوا کر حلقے کی نذر کیا۔
ڈاکٹر سعادت سعید نے جو ستر ،اسی کی دہائی میں ایک با ر سیکرٹری شپ کے لئے اس خاکسار کے مقابل آئے ، سخت مقابلہ ہوا جو انہوں نے جیت لیا تھا اور ہم نے انہیں مبارک باد بھی دی اور نوائے وقت میں ایک کالم ان کی فتح کی نذر کیا تھا، اپنے خطاب کے چند پیرا گراف بھی پڑھ کر سنائے اور زبانی گفتگو بھی کی۔انہوں نے 70ءکی دہائی کے مرکزی حلقہ ارباب ذوق کے اس تاریخی ماحول کویاد کیا جب شہزاد احمد سیکرٹری تھے او ر وہ انکی مجلس عاملہ کا حصہ تھے۔ تب حلقہ میں عزیز الحق جیسے دانشوروں کا جادو سر چڑھ کر بولتا تھا اور عارف امان، عزیزالدین احمد، افتحار جالب، عابد حسن منٹو، احمد بشیر، صفدر میر، ظہیر کاشمیری، انیس ناگی، خالد محبوب لڈو اور آزاد کوثری جیسے نقاد وں کی گفتگو سے حاضرین کے علم میں بے پناہ اضافہ ہوتا تھا۔ 
مجھے ڈاکٹر صاحب کی رائے سے اتفاق ہے اور یہ بھی یاد ہے کہ ان دنوں جو مضامین حلقے میں تنقید کے لئے پیش ہوتے تھے انکی کاپیاں فروخت کی جاتی تھیں اور لوگ خوشی سے خریدتے تھے۔اب کہاں سے لائیں پرانا پاک ٹی ہاﺅس جس کی بندش پر آخری احتجاجی اجلاس کی صدارت ٹی ہاﺅس کے سامنے فٹ پاتھ پر اس خاکسار نے کی تھی۔ بعد میں بحالی کی اداکاریوں میں پاک ٹی ہاﺅس کے سامنے ادیبوں کے لئے پارکنگ کا بورڈ بھی لگا لیکن اسے پرانے ٹائروں کے قبضہ گروپوں سے آج تک خالی نہیں کرایا جا سکا۔نواز کھرل کے لئے یہ بھی ایک چیلنج ہو گا۔اہل قلم کی دوسری بڑی تقریب یعنی تخلیق ادبی ایوارڈ کے حوالے سے ملک بھر سے اہل قلم کا اجتماع بھی لاہور کی تہذیبی زندگی کوجلا بخشنے کا باعث بنا۔
 اظہرجاوید تو اظہرجاوید تھے ہی انکے اکلوتے وارث سونان اظہرجاوید بھی بہت متحرک نکلے۔ وہ جو کہا گیا ہے کہ۔آنچہ پدر نتواند پسر تمام کند۔۔۔ تو محبی اظہر جاوید کے بعد ان کے بیٹے سونان کے اپنے الفاظ میں ، اس جریدے کا دوسرا دور کچھ امتیازات قائم کرنے میں بحمداللہ کامیاب رہا ! ان میں نمایاں ' تخلیق ایوراڈ ' کا اجرا قرار پائے گا - اس ایک عشرے سے زاید عرصے میں قد آور ادبی شخصیات کا اعتراف کرتے ہوئے گیارہ ایوارڈز کا کریڈٹ گزشتہ برسوں کا حاصل ہے اور اب بارھواں ایوارڈ تالیوں کی گونج میں جناب نسیم سحر کے نام ہوا - اس بار بھی آ فوش کلب فیلکن کمپلیکس گلبرگ لاہور کے خوبصورت ہال میں تخلیق ایوارڈ کی تقریب کا اہتمام کیا گیا -ایک سو سے زاید ممتاز علمی ادبی احباب اور اپنی جگہ انجمن کی طرح۔' تخلیق ' کے بانی مدیر اظہر جاوید سے ذاتی تعلق رکھنے والوں نے انھیں بہت جذبے سے یاد کیا ! ان پر ڈاکٹریٹ کا تھیسس لکھنے والے فیصل شہزاد، اظہر جاوید کا کلام پیش کرنے والے عدیل برکی اور شوکت علی ( مرحوم ) کے صاحب زادے امیر شوکت علی خاص طور پر حاضرین کی توجہ کا مرکز بنے - سونان اظہر کا کہنا تھا کہ تخلیق ' کو جاری رکھنا ایسا سہل تو نہیں مگر شرکاءکی حوصلہ افزائی نے میری جہد کو با ثمر کر دیا ہے - 
سب موجودگان کی محبتوں کا مقروض ہوں کہ وہ آج کے مصروف عہد میں اپنا قیمتی وقت نکال کر میری خوشی میں شامل ہوئے۔۔نواز کھرل کے حسن نظامت کے ساتھ علم و حکمت اور ادب و صحافت کے اپنی اپنی جگہ انجمن صفت جن چاند چہروں نے شرکت کی ان میں ڈاکٹر خورشید رضوی،ڈاکٹر خواجہ زکریا،نسیم سحر،خالد اقبال یاسر،نزیر قیصر،مجیب الرحمن شامی،عرفان اطہر ،نوید چوہدری، خرم پاشاہ، خاور نعیم ہاشمی،ڈاکٹر طارق شریف پیرزادہ،ڈاکٹر زاہد منیر عامر، کاشف منظور، خالد شریف، ایوب غوری،جبار مرز،ا حمید رازی، اشرف جاوید،شاہد علی خان،میجر شہزاد نییر،ریاض حسسیں زیدی،شہزاد روشن گیلانی،پیر ضیاءالحق نقشبندی، پروفیسر اعتبار ساجد، فرید پراچہ،امیر بہادر ہوتی، ،فرحت عباس شاہ، خواجہ سرفراز،بیدار سرمدی، ڈاکٹر یونس خیال، ڈاکٹر محمد رفیق، توقیر شریفی، ڈاکٹر ایوب ندیم، ڈاکٹر غافر شہزاد،ڈاکٹر جواز جعفری ڈاکٹر اشفاق ورک،ڈاکٹر عبدالکریم، جمیل احمد عدیل، ڈاکٹر افتخار بخاری، حفیظ طاہر، سلیم شہزاد، ممتاز راشد لاہوری، فیصل شہزاد،سحر حفیظ،تسنیم کوثر، فرحت پروین، بینا گوئیندی،نوین روما،فائزہ بخاری، سلمی اعوان، بلقیس رضا، خالد محمود، صوفیہ بیدار، غلام حسین ساجد،نواز کھرل، عائشہ مسعود،حسن عسکری کاظمی، شفیق احمد فاروقی،شمشیلہ سعید، رضوان بٹ، حسن عباسی ، سعدیہ سونان اور بہت سے دوسرے دوستوں کی فہرست سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ تقرییب کاگلدستہ کتنا ہفترنگ تھا۔
٭....٭....٭

مزیدخبریں