تلخ حقائق کی بازگشت

پاکستان کی آزادی کے معمار اور مسلم لیگ کے ر±وحِ رَواں قائداعظم محمد علی جناح 14 اگست 1947ءکو پاکستان کے پہلے گورنر جنرل کے منصب پر جبکہ انڈین نیشنل کانگریس کے رہبر اور ہندوستان کی تحریکِ آزادی کے معتبر کردار پنڈت جواہر لال نہرو 15 اگست 1947ءکو وزیر اعظم کے عہدے پر متمکن ہوئے۔ دونوں کی شخصیات میں بعض حیرت انگیز مماثلتیں بھی پائی جاتی تھیں۔ مثال کے طور پر دونوں کرشماتی شخصیات کے حامل تھے، دونوں نے اعلیٰ تعلیم برطانیہ سے حاصل کی تھی، دونوں برطانوی نظام کے پیچ و خم کو بخوبی سمجھتے تھے، دونوں ایک ایک بیٹی کے باپ تھے، دونوں کی دنیا اور ہندوستان کے حالات پر گہری نظر تھی، دونوں صاحبِ بصارت و بصیرت تھے، دونوں نے پاک و ہند کی آزادی کے لئے شب و روز محنت کی تھی اور دونوں کا شمار اپنے وقت کی نمایاں ترین ہستیوں میں ہوتا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ دونوں کی سوچ کے معیار میں عدم مماثلت کا عنصر بھی بدرجہ اتم موجود تھا۔ قائداعظم دلیل، اصول اور شرافت جیسی خوبیوں کی بنا پر عملی زندگی میں قدم بڑھاتے تھے تو پنڈت نہرو کی نظر میں دلیل، اصول اور شرافت کے معیارات کچھ اور تھے۔ قائداعظم کبھی جیل نہیں گئے جبکہ پنڈت نہرو نے کئی دفعہ جیل یاترا کی۔ قائداعظم اصولوں پر ڈٹ جانے والے انسان تھے جبکہ نہرو بات بات پر پینترے بدلنے کے ماہر تھے۔ اِن تمام حقائق کے باوجود دونوں اپنی اپنی قوم کے لئے نجات دہندہ کی حیثیت رکھتے تھے۔ 
بھارتیوں کی خوش بختی کہیے کہ پنڈت نہرو نے 27 مئی 1964ءتک بھارت کے پہلے وزیراعظم کی حیثیت سے کام کیا اور پاکستانیوں کی بدبختی گردانیے کہ قائد اعظم کی زندگی نے وفا نہ کی اور وہ 11 ستمبر 1948ءکو وہ اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ وزیراعظم لیاقت علی خان بھی لیاقت باغ راولپنڈی میں تقریر کے دوران سید اکبر نامی شخص کی گولی کا نشانہ بن گئے۔ عجب مقامِ افسوس یہ ہوا کہ اِس قتل کے محرکات کا آج تک قوم کو پتہ نہ چل سکا۔ قائداعظم کی وفات کے بعد قوم نے لیاقت علی خان سے جو امیدیں اور توقعات وابستہ کر رکھی تھیں، ان کی شہادت کے بعد وہ خاک میں پیوست ہو گئیں۔ 
ا±دھر 1962ءکی بھارت چین جنگ میں رسوا کن ہار کے صدمے نے پنڈت نہرو کے بظاہر مضبوط اعصاب کو شل (crush) کر دیا تھا۔ روزنامہ انڈین ایکسپریس کے نیوز ایڈیٹر ٹریور ڈرائی برگ کے مطابق، "ایک ہی رات میں نہرو تھکے ہوئے، مایوس اور بوڑھے آدمی کی طرح لگ رہے تھے۔ ان کے چہرے پر بہت سی جھریاں نمودار ہو گئی تھیں اور ان کی چمک ہمیشہ کے لئے چلی گئی تھی"۔ غالباً یہی احساسِ شکستگی دل کے دورے کی صورت میں ان کو موت کی وادی میں لے گیا۔ قائد اعظم شدید علالت کے باوجود بغیر آرام کئے قوم کے دکھوں کا مداوا کرنے کی جستجو میں مگن رہے اور اپنی صحت کے معاملے کو دوسری ترجیح میں جگہ دی۔ ان کو بمشکل 13 ماہ حکومت کرنے کا موقع مل سکا۔ نہرو کی موت کے بعد ان کا خلا تو جیسے تیسے پ±ر ہو گیا مگر قائد اعظم اور لیاقت علی خان کے جانشین قوم کی توقعات اور امنگوں پر پورا اترنے میں یکسر ناکام رہے۔ 
آزادی سے قبل انگریزوں نے متحدہ ہندوستان میں اپنے من پسند اور وفادار لوگوں کو جاگیریں عطا کر رکھی تھیں۔ کانگریس کے منشور میں جاگیرداری کے خاتمے کا نکتہ شامل تھا۔ پنڈت نہرو نے جاگیردارنہ نظام کو حسبِ وعدہ ختم کر دیا۔ مسلم لیگ کے منشور میں بھی جاگیردارانہ نظام کے خاتمے کا ذکر تو تھا مگر یہ جاگیریں صرف مشرقی بنگال میں ختم ہو سکیں۔ 1947ءسے 1958ءتک اقتدار کے مزے لوٹنے والے سندھ، پنجاب اور سرحد کے جاگیردار بھلا کیونکر اپنے پاو¿ں پر کلہاڑی مارتے؟ پنڈت نہرو نے ایک دفعہ پاکستان میں حکومتوں کی ادلا بدلی اور سیاسی افراتفری کو زرعی اصلاحات کے عدم نفاذ کی وجہ قرار دیا تھا۔ پاکستان میں مسائل کی بہتات اور وسائل کی کمیابی کو بنیاد بنا کر زرعی اصلاحات یا دوسرے ضروری معاملات سے پہلو تہی کرنے کا کوئی جواز نہیں بننا چاہئیے تھا۔ دوسری جنگ عظیم میں دونوں اطراف کے ممالک جنگی تباہ کاریوں اور ہولناکیوں کے باوجود اپنے روزمرہ معمولات نپٹانے سے غافل نہیں ہوئے تھے۔ 
 خارجہ پالیسی کے میدان میں پنڈت نہرو نے غیر جانبدار رہنے کی پالیسی اختیار کی اور 1961ءناوابستہ ممالک کی تنظیم میں شامل ہو کر انڈیا کے غیر جانبدارانہ موقف کو اجاگر کیا۔ انہوں نے اندرون ملک تمام قومیتوں کو قومی دھارے میں لانے کے لئے سیکولرازم کے تصور کا پرچار کیا۔ ہندوو¿ں کی تنگ نظری اور متعصبانہ رنگ بازیوں کے باوجود وہ دنیا کو بھارت کا سیکولر چہرہ دکھانے میں کامیاب رہے۔ سوویت یونین کی توسیع پسندانہ حکمتِ عملی کے باعث پاکستان کی خارجہ پالیسی کو قائداعظم مشرق وسطیٰ کے ممالک کے ساتھ مل کر ترتیب دینا چاہتے تھے مگر ان کو موقع نہ مل سکا۔ ان کی وفات کے بعد پاکستانی حکمرانوں نے سیٹو اور سینٹو میں شامل ہو کر خوب اچھل کود کی اور اس کا خمیازہ 1965ءاور 1971ءکی پاک بھارت جنگوں میں پاکستان نے بھگتا۔ امریکی عدم حمایت کی بنا پر ہم نے 1965ءمیں تاشقند جا کر اسی عطار کے لونڈے سے دوا لی۔ 
پنڈت نہرو نے اپنی سربراہی میں بھارتی دستور ساز اسمبلی کو آئین تیار کرنے کا ٹاسک سونپا۔ ہندوستان کا آئین 299 ارکان پر مشتمل اسمبلی نے 3 سال سے زیادہ عرصے میں 11 اجلاسوں کے دوران تحریر کیا۔ 26 جنوری 1950ءکو یہ آئین ملک میں لاگو ہو گیا تھا جبکہ پاکستان کو آزادی کے 9 سال بعد 29 فروری 1956ءکو پہلا آئین نصیب ہوا۔ ستم بالائے ستم یہ کہ ا±سے بھی دو سال کے بعد معطل کر دیا گیا۔ نہرو نے پہلے سے قائم شدہ ملکی اداروں کو مضبوط کیا اور بہت سے نئے ادارے بھی قائم کئے اور ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کر دیا۔ ہم نے جو کام بھی کیا، بہت دیر کے بعد کیا اور اس پر عمل درآمد میں بھی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا۔ اِس سلسلے میں زرعی اصلاحات کے نفاذ اور آئین سازی کی مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں.
19 ستمبر 1960ءکو پاکستان اور بھارت کے درمیان سندھ طاس معاہدے سے بھارتی پنجاب کی کھیتیاں سرسبز و شاداب جبکہ تین دریاو¿ں پر بھارتی ڈیموں کی تعمیر کے بعد ہماری زمینوں کو سیراب کرنے والے سوتے خشک ہوتے ہوتے گندے پانی کے نالوں میں بدل گئے۔ پنڈت نہرو نے مختلف مذاہب، زبان، رسم و رواج رکھنے والے اور گروہوں کی شکل میں بکھرے لوگوں کو ایک قوم بنا ڈالا جبکہ ہمارے رہنما ایک خدا اور ایک رسول کو ماننے والے پانچ صوبوں کے مسلمانوں کو وحدت کی لڑی میں نہ پرو سکے۔
٭....٭....٭

ای پیپر دی نیشن