پاکستانی معیشت اور بِن بلائے مہمان

Mar 17, 2024

ریاض چودھری

یہ حقیقت ہے کہ ”پاکستانی معیشت کی کشتی“ ہماری اپنی ہی ناقص پالیسیوں، غلط منصوبہ بندی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے ایک ایسے ”بھنور“ میں پھنسی ہوئی ہے جسے اربوں ڈالرز کے بیرونی قرضے اور دوست ممالک سے ملنے والی اربوں ڈالرز کی بھاری امدادی رقوم بھی ”تلاطم خیز صورتحال“ سے باہر نہیں نکال سکیں۔ دکھ کی بات یہ ہے کہ اب کوئی عالمی مالیاتی ادارہ اور دوست ملک بھی ہمارے ”عالمی شہرت یافتہ کشکول گدائی“ کو بھرنے کو تیار نہیں ہے اِ ن سب کا ایک ہی مطالبہ ہے کہ آپ پہلے اپنے مالیاتی، اقتصادی اور انتظامی شعبوں کو درست کریں ، ٹیکس نیٹ کو مزید وسعت دیں۔ آئی ایم ایف کے ”ڈنڈے اور ایجنڈے“ سے ہمارے عوام بدحال ہو چکے ہیں اور مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کے سونامی میں غوطے کھا رہی ہے لیکن دوسری طرف مراعات یا فتہ طبقے کے موجودہ حالات میں بھی وارے نیارے ہی ہیں۔ ہمارے حکمرانوں کے لیے عوام کو قربانی کا بکرا بنانا سب سے آسان ہے اسی لیے تو وہ آئے دِن عوام پر پٹرول بم، بجلی بم، گیس بم، ٹیکس بم اور مہنگائی بم گرا رہے ہیں، ظلم اور نا انصافی کی حد ہے کہ بزرگ شہریوں کی زندگیوں کو بھی اجیرن بنا کر رکھ دیا ہے۔ عام ادویات کے ساتھ ساتھ جان بچانے والی ادویات جو کہ اِ ن بوڑھے بزرگوں کی خوراک کا لازمی حصہ بن چکی ہیں ان کی قیمتوں میں ریکارڈ اضافہ ہو چکا ہے۔ حکومت معیشت کو ”استحکام“ دینے کے لیے بوڑھے بزرگوں کی پنشن کی رقم کو ”شربتِ فولاد“ کے طور پر استعمال کرنا چاہتی ہے، حکومت کا آئی پی پیز پر تو کوئی بس نہیں چلتا مگر بے چارے بے بس بوڑھے بزرگ پنشنر ان کے ”نشانہ ستم“ کی زد میں ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہماری ملکی معیشت کی تباہی اور عوام کے مسائل میں اضافہ کی وجہ آئی پی پیز معاہدے ہی ہیں۔ نہ جانے حکومت اِن ”لاڈلوں“ کی طرف کب توجہ دےگی؟ یہ امر نہایت خوش آئندہے کہ ہمارے آرمی چیف سید عاصم منیر نے ملکی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے قابلِ عمل روڈ میپ دیا ہے جس کے تحت زراعت، صنعت، تجارت، سرمایہ کاری اور برآمدات کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ سمگلنگ کے خاتمے کے لیے بھی عملی اقدامات کرنے پر زور دیا گیا ہے، ملکی معیشت کو بحرانوں سے نکالنے کے لیے غیر قانونی طور پر مقیم غیر ملکی شہریوں کا فوری انخلاءبھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ اس وقت اس اہم منصوبے پر تیزی سے کام جاری ہے کیونکہ وطن عزیز کی معیشت اور سیکورٹی ہمارے لیے سب سے مقدم ہے۔ اسی لیے تمام حکومتی اداروں خاص کر پاکستان رینجرز نے ایسے لوگوں کی سکیننگ اور میپنگ نہایت ذمہ داری 
سے کی۔ غیر قانونی طور مقیم افراد کے انخلاءکو یقینی بنانے کے لیے متعلقہ محکموں، اداروں کی دیہی اور شہر ی علاقوں میں مصروف ٹیموں کو پولیس اور رینجرز نے مکمل سیکورٹی دی۔ یاد رہے کہ غیر ملکی افراد کے پاس موجود دستاویزات کی جانچ پڑتال انتہائی باریک بینی سے اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے کی گئی ہے۔ وہ غیر ملکی افراد جن کے پاس کوئی دستاویزات نہیں تھیں انہیں مختلف اضلاع میں قائم ھولڈنگ ایریا کیمپوں میں رکھا گیا جہاں انہیں رہائش، کھانے پینے کے ساتھ ساتھ طبی سہولتیں بھی فراہم کی گئیں۔ یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ خواتین اور مردوں کے لیے الگ الگ کیمپ لگائے گئے تھے۔ ہر کیمپ میں ایسے افراد کی رجسٹریشن کے لیے ڈیسک قائم کیے گئے تھے جہاں نادرا کے مہیا کردہ خصوصی سافٹ وئیر جو کہ بارڈر مینجمنٹ سسٹم سے منسلک ہے، کے ذریعے ایف آئی اے کا عملہ تمام ضروری جانچ پرکھ اور دیگر امور کی انجام دہی میں مصروف ہے۔ ان کیمپوں سے بارڈر کراسنگ پوائنٹس تک غیر قانونی طور مقیم افراد کے انخلاءکے حوالے سے تمام قانونی کارروائیاں مکمل کی جارہی ہیں۔ اس کے علاوہ ان افراد کے ساتھ لین دین اور کاروبار کرنے والے افراد کی سخت قانونی کارروائی بھی کی جارہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ریاست کے وسیع تر مفاد، ملکی معیشت کو مضبوط کرنے قومی یگانگت کے فروغ امن و امان کی صورتحال کو بہتر بنانے اور دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اِن غیر قانونی طور پر مقیم افراد کا انخلاءبے حد ضروری تھا۔ اس قومی مشن کی تکمیل کے لیے تمام حکومتی اداروں، پولیس اور بالخصوص پاکستان آرمی کا کردار لائق تحسین ہے۔ اب تک کے سرکاری ا عداد و شمار کے مطابق تقریباً دولاکھ30ہزار کے لگ بھگ افرادکا انخلاءمکمل ہو چکا ہے۔ یاد رہے کہ روس افغانستان جنگ اور امریکہ افغانستان جنگ کے دوران تقریبا ً50لاکھ کے لگ بھگ افغان شہریوں نے پاکستان میں پنا ہ لی تھی۔ پاکستان گزشتہ 44سال سے افغانستان کے مہاجرین کی مسلسل خدمت کررہا ہے اور انہیں ہر ممکن سہو لتیں بھی دے رہا ہے لیکن افسوس ناک امریہ ہے کہ غیر قانونی طور پر مقیم ان مہاجرین کی وجہ سے جہاں پاکستان کی معیشت پر منفی اثرات پڑرہے تھے وہیں اس سے دہشت گردی کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا تھا۔ ہماری اپنی ناقص انتظامی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی وجہ سے ان مہاجرین نے ملک میں ہر جگہ جائیداد یں خریدیں، پلازے بنائے اور سمگلنگ کے دھندے کو عروج دیا۔ ان غیر قانونی طور پر مقیم مہاجرین نے پاکستان کے قومی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بھی بنوالیے تھے جس پر ایف آئی اے اور دیگر حکومتی ادارے وسیع پیمانے پر کارروائیاں کررہے ہیں۔ پاکستان سے ڈالروں کی افغانستان سمگلنگ میں بھی یہی لوگ ملوث ہیں۔ قصہ مختصر پاکستان میں غیرقانونی مقیم ان افغانیوں کی وجہ سے ہماری معیشت دباو¿ کا شکار تھی۔ وقت کا یہ تقاضاتھا کہ ان لوگوں کو ان کے ملک واپس بھیجا جائے۔ اس اہم مسئلے پر گنتی کے چند سیاسی افراد اور ترقی پسند تنظیموں کی طرف سے بے جا تنقید کسی صورت بھی مناسب نہیں ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ حکومت نے قومی سلامتی کے اداروں کے تعاون سے اس اہم مسئلے کے حل کے لیے جرا¿ت مندانہ قدم اٹھایا ہے جس کو ہر سطح پر ہر پلیٹ فارم پر سراہا جارہا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ عوام غیرقانونی طور پر مقیم افراد کی نشان دہی کے لیے حکومت سے تعاون کرتے ہوئے اپنی قومی ذمہ داریاں ادا کریں۔ اس پروگرام کو کامیاب بنانے کے لیے حکومتی محکموں، اداروں، ایف آئی اے پولیس رینجرز اور پاکستان آرمی کی کارکردگی قابلِ تحسین ہے۔ اس پروگرام کے مکمل ہونے سے نہ صرف امن و امان کی صورتحال بہتر ہوگی بلکہ ملکی معیشت بھی یقینا مضبوط ہوگی۔

مزیدخبریں