قیام پاکستان کے بعد 1956 ءتک برطانوی بادشاہ پاکستان کا سربراہ تھا ،لہذا1947 ئکے 1956 ء تک برطانوی بادشاہ کے نمائندے گورنر جنرل کے طور پر حکومت کے سربراہ تھے ،جن میں قائد اعظم محمد علی جناح ، خواجہ ناظم الدین، ملک غلام محمد ، اور اسکندر مرزا پاکستان کے گورنر جنرل کے عہدے پر فائز رہے .
7، اگست 1947 ءمیں قائدِ اعظم محمد علی جناح بمبئی سے کراچی تشریف لائے تھے ، 10 ، اگست 1947 ءکو پاکستان اسمبلی کا پہلا اجلاس ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے ممبر اسمبلی جو گندر ناتھ منڈل کی صدارت میں ہوا تھا ، جو کہ 14، اگست 1947 ءتک جاری رہا ، اس اجلاس میں قائد اعظم کو اسمبلی کا پہلا صدر اور مولوی تمیزالدین کو پہلا اسپیکر منتخب کیا گیا تھا ، 24 اکتوبر 1954 ءمیں ملک غلام محمد اس پہلی دستور ساز اسمبلی کو توڑ کر ملک میں ہنگامی حالت نافذ کر کے گورنر جنرل بن بیٹھے، اور پاکستان کی منتخب حکومت کو برطرف کرنے کی غیر قانونی اور غیر اخلاقی بری روایت ڈالنے کے مر تکب ہوئے ،ملک میں گزشتہ 13صدور میں سے پانچ کا تعلق فوج سے تھا ایک بیوروکریٹ ، ایک کا تعلق عدلیہ سے باقی سیاسی شخصیات تھیں۔
24اکتوبر ،1955 ءمیں میجر جنرل ا سکندر مرزا ملک غلام محمد کو اقتدار سے علیحدہ کرکے خود گورنر جنرل بن گئے ، 1956ء میں ملک کے پہلے آئین کے نفاذ کے بعد پاکستان کے نظام حکومت میں صدر کا عہدہ پہلی بارقیام پاکستان کے 9 سال بعد عمل میں آنے کے بعدا سکندر مرزا ملک کے پہلے صدر منتخب ہوئے، اسکندر مرزا بھی پاکستان میں صدارتی گورکھ دھندے میں بری روایات ڈالنے والے برے حکمرانوں میں شامل ہیں ،27، مارچ 1958 ءمیں سکندر مرزا کو بر طرف کر کے جنرل ایوب خان مسند صدارت پر بر اجماں ہو گئے ، جنرل ایوب خان اپنے دس سالہ دور حکومت میں مطلق العنان دوسرے صدر تھے ان سے متعلق حقائق اب ڈھکے چھپے نہیں رہے۔
1971 ءکے یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ ، برطانیہ اور سویٹ یونین کے ڈی کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس سے مشرقی پاکستان کے کشیدہ حا لات کا پتہ چلتا ہے ، جو کہ 1963 ءکے اوائل میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے دس سال پہلے امریکہ کے سفیر نے امریکی سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کوواضح طور پر رپورٹ کیا کہ مشرقی پاکستان اور مغربی پاکستان کے مابین جس طرح کی کشیدگی بڑھ رہی ہے ،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ علیحدہ ہو جائیں گے ، متعدد رپورٹس میں دلی، ڈھاکہ اور کراچی میں تعینات امریکی سفیروں نے واشنگٹن کو مطلع کیا ،جس میں ہر دوسری رپورٹس مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا تاثرظاہر کرتیں تھیں۔
امریکی صدر کی ڈائری اور وائٹ ہاﺅس کے ڈی کلاسیفائیڈ ڈاکومنٹس میں ایک اہم انکشاف بھی ملتا ہے کہ جب صدر جنرل ایوب خان نے امریکی صدر نکسن سے واشنگٹن میں ملاقات کے دوران مشرقی پاکستان کے بگڑتے ہوئے حالات پرتبادلہ خیال کیا تو امریکی صدر نکسن نے کہا کہ اگر مشرقی پاکستان کی صورتحال اس قدر بگڑتی جا رہی ہے تو آپ اس مسئلے کو حل کیوں نہیں کرتے، جس کے جواب میں ایوب خان نے کہا کہ میں آپ کو تاریخ بتا دیتاہوں کہ ہم مشرقی پاکستان کو اگست ،1972 ءتک اپنے سے علیحدہ کر دیں گے، ایوب خان کے ارادوں کی تصدیق ایئر مارشل اصغر خان نے کیبنٹ میٹنگ میں رونما ہوئے واقع کو بیان کرتے ہوئے کی کہ بنگال کے ممبر نے ایوب خان سے مشرقی پاکستان میں ترقیاتی فنڈ کے بارے میں جب پوچھا تو ایوب خان تلملا اٹھے اور میٹنگ روم سے باہر نکل گئے اور کہا کہ ان سے کہو علیحدہ ہو جائیں، مشرقی پاکستان کی قد آور شخصیت نور الامین کو ایوب خان نے بلا کر کہا کہ میں بحیثیت صدر آپکی مدد کروں گا آپ لوگ علیحدہ ہو جائیں۔
جنرل یحییٰ خان پاکستان کے تیسرے صدر جو کہ مزاجاً شراب و شباب کے رسیا اور چیف مار شل لاءایڈمنسٹریٹر بھی تھے، سقوطِ ڈھاکہ کے بعد 20 ، دسمبر 1971 ءکوملک کے دو لخت ہونے کے بعد مارشل لاءکی چھتری تلے ذوالفقار علی بھٹو کو اقتدار بحیثیت سول مارشل لاءایڈمنسٹریٹر او ر ملک کے چوتھے صدر کا منصب سونپ کر علیحدہ ہوئے۔
فضل الہی چوہدری ویسے تو ملک کے پانچویں صدر شمار کئے جاتے ہیں لیکن 1973 ءکے آئین کے تحت وہ پاکستان کے پہلے منتخب صدر تھے ، جو کہ انتہائی شریف النفس سیاست داں مانے جاتے ہیں ، 16 ، ستمبر 1978 ءکو جنرل ضیاءالحق آئین کو معطل کر کے ملک کے چیف مارشل لاءایڈمنسٹر چھٹے متنازع صدربنے ، ان کے دور میں آئین کی پامالی ، سیاسی و صحافی کارکنوں کو کوڑے مارنے جیسے گھناﺅنے اقدامات کے علاوہ کلاشنکوف اور ہیروئین کلچر کا فروغ معاشرے کے بگاڑ کا سبب بنا۔
ڈکٹیٹرضیا ئالحق کے فضائی حادثے کے بعد بیورو کریٹ اور اقرباء پرورغلام اسحاق کو صدارت کے فرائض سونپ دیئے گئے ، جنہوں نے دو منتخب وزراءاعظم کو آئین کی دفعہ 58-2-B کی آڑ میں بر طرف کیا اور یہ دونوں وزراءاعظم انتخابات میں عوامی حمایت سے دوبارہ ایوان میں آئے،ملک کی منتخب اسمبلی سے منتخب ہونے والے ملک کے آٹھویں صدر سردار فاروق لغاری تھے جنہوں نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو ملک میں کرپشن اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کے الزام کے تحت بر طرف کیا تھا۔
ملک کے منتخب نویں صدر جسٹس محمد رفیق تارڑ کو ڈکٹیٹر آئین شکن جنرل پرویز مشرف نے خود مسند صدارت پر فائز ہو کر علیحدہ کیا اور ملک کے دسویں صدر کہلائے ،انہوں نے مخالف سیاسی اکائیوں سے بغض اور نفرت پر مبنی رویہ کوپروان چڑھایا، آصف علی زرداری گیارویں صدر بنے اور سیاست میں رواداری اور صدارتی اختیار میں کمی کی اور پارلیمنٹ کو تقویت دی ، بارہویں صدر ممنون حسین شریف النفس پاکستانی تھے ، تحریک انصاف کے عارف علوی جانبدار تیرہویں صدر غیر آئینی اقدامات کرنے کے موجب بنے جوکہ پارٹی لیڈر کے اشاروں پر چلتے تھے، اور انہوں نے کسی بھی سطح پر صدر کے عہدے کا پاس نہیں رکھا،ان کا دور بھی جنرل ضیاءالحق اور جنرل مشرف کی طرح آئین شکن کے طور پر تاریخ میں رقم ہو گا۔
پاکستان کے آئین میں واضح طور پر ایک صحت مند ترمیم ہونی چاہئے کہ عدلیہ ، دفاع اور ایونِ صدر میں کسی قسم کی جانبداری اور ملک و آئین کے منافی اقدامات کرنے والے کو فوراً عہدہ سے سبکدوش کر کے تمام مراعات سے محروم کر دیا جائے، اور قرار واقعی سزا بھی دی جائے۔
صدورِ پاکستان اور تاریخ کے اوراق
Mar 17, 2024