میرے تایا قاضی نصیر الدین سر ہندی جماعت اسلامی کے رکن تھے۔ وہ قیام پاکستان سے قبل مجلس احرار اسلام سے وابستہ تھے۔ پاکستان بننے کے بعد انہوں نے کچھ عرصہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں قیام کیا اور پھر کاروبار کے لئے اپنے سسرال کے مشورہ سے ڈیرہ غازی خان چلے گئے جہاں ان کی ملاقات ڈاکٹر نذیر احمد صاحب سے ہوئی جو جماعت اسلامی کے رہنما اور ایک درویش خدامست تھے۔ میرے تایا ڈاکٹر صاحب کے ایثار و اخلاص سے بہت متاثر ہوئے اور پہلے جماعت کے متفق بنے اور پھر باقاعدہ رکنیت اختیار کرلی مگر ان کا دل ڈیرہ غازی خان میں نہ لگا اور وہ وہاں سے کراچی چلے گئے جہاں نیو کلاتھ مارکیٹ میں انہوں نے کپڑے کا کاروبار شروع کر دیا۔ یہاں انہیں سید اسعد گیلانی کا قرب ملا جو ہفت روزہ جہان نو نکالتے تھے اور جن کا شمار جماعت کے ممتاز رہنماﺅں میں ہوتا تھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب اسعد گیلانی صاحب مارٹن کوارٹرز میں ایک کمرے کے گھر میں رہتے تھے اور یہ کمرہ ہی ان کے اخبار کا دفتر تھا مگر جہان نو جیسا تیزو تند پرچہ اس کے بعد کوئی دیکھنے میں نہ آیا۔ میرے تایا مجھے وہاں سے جہان نو بھیجنے لگے اور ایک شمارے میں یہ اعلان بھی شائع کرا دیا کہ ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جہان نو مجھ سے حاصل کیا جاسکتاہے۔ کراچی بھی میرے تایا کو راس نہیں آیا اور وہ واپس ٹوبہ ٹیک سنگھ آگئے۔ یہاں یہ دیکھ کرانہیں بڑی فکر لاحق ہوگئی کہ میں روزنامہ امروز کا نامہ نگار ہوں اور آزاد پاکستان پارٹی سے میرا تعلق ہے اور میرا اٹھنا بیٹھنا ان لوگوں میں ہے جنہیں عرف عام میں کمیونسٹ کہا جاتا تھا۔ کمیونسٹ سے یاد آیا کہ ایک روز میں اپنے سکول سے گھر آیا تو ایک صاحب میرے والد صاحب کے پاس بیٹھے ہوئے تھے،انہوں نے بتایا کہ سپیشل پولیس کے ایک آدمی لائل پور سے آئے ہوئے ہیں اور مجھے ملنا چاہتے ہیں اور غلہ منڈی میں ایک دوکان پر تشریف فرما ہیں۔ میں ان صاحب کے ساتھ وہاں چلا گیا تو معلوم ہوا کہ میں نے روسی سفارت خانے کو ایک خط لکھا تھا۔ جس میں ان سے اپنا لٹریچر بھیجنے کی درخواست کی تھی۔ یہ خط سی آئی ڈی کے ہتھے چڑھ گیا اور مجھے اسی غرض سے بلایا گیا تھا کہ کیا میں کمیونسٹ ہوں، سپیشل پولیس کے افسر کو یہ جان کر بہت تعجب ہوا کہ میں ایک طالب علم ہوں اور ابھی سکول میں پڑھتا ہوں۔ انہوں نے مجھ سے طرح طرح کے سوالات کئے۔ میرے اساتذہ میں کلین شیو کون کون سے لوگ ہیں اور باریش کون کون سے۔ میں نے کون کون سی کتابیں پڑھی ہیں اور کن جماعتوں اور لیڈروں کی طرف میرا رجحان ہے۔ میرے جوابات کو تسلی بخش پا کر انہوں نے مجھے جانے کی اجازت دے دی۔ اس کے بعد ایسا ہی ایک واقعہ اس وقت پیش آیا جب میں نے جماعت اسلامی کی ایک خبر ارسال کی اور پھر بھی مجھے سپیشل پولیس کے سامنے جواب دہی کرنا پڑی۔ پتہ یہ چلا کہ ہمارے ڈاک خانے میں سپیشل پولیس کا ایک اہلکارمتعین ہے جو خاص طور پر اخبارات کے نام جانے والی ڈاک پر نظر رکھتا ہے۔ اس کے نزدیک جو مواد بظاہر حکومت کے خلاف ہو اسے مکتوب الیہ تک پہنچنے ہی نہیں دیتا ، بعض صورتوں میں ایسا مواد بھیجنے والے کی سرزنش بھی کی جاتی ہے۔ خیر ذکر ہورہا تھا تایا کی ذہنی پریشانی کا، ایک روزانہوں نے بڑے پیارسے مجھے اپنے پاس بلایا، ہمارے تایا غیر معمولی انسانی اوصاف کے مالک تھے۔ ہمارے گھر میں کوئی بیمار ہو جاتا تو ہمارے والد کو اس کی کوئی فکر نہیں ہوتی تھی۔ تایا جی جانیں اور ان کا کام۔ سب اہل خانہ کی دیکھ بھال تایا جی کرتے تھے اور ان کے چہرے پر ایک دائمی مسکراہٹ کھیلتی رہتی تھی۔ مجھے انہوں نے کہا کہ میں آج تم سے ایک ایسی بات کہنا چاہتا ہوں جس کا جواب مجھے اثبات میں ملنا چاہئے۔ اس میں انکار کی کوئی گنجائش نہیں۔ میں اصرار کرتا رہا کہ آپ پہلے مجھے یہ بتائیں کہ آپ مجھے کیا کہنا چاہتے ہیں مگر تایا جی نے کہا پہلے تم اقرار کرو کہ میری بات مانو گے پھرمیں تمہیںوہ کام بتاﺅں گا، خیر میں نے ہاں کر دی، تب انہوں نے کہا کہ میری خواہش ہے کہ تم ٹوبہ ٹیک سنگھ میں جماعت اسلامی کے اخبار روزنامہ تسنیم کے نامہ نگار بن جاﺅ۔ میں نے ان سے عرض کیا کہ میں پہلے سے روزنامہ امروزکا نامہ نگارہوں اورمیاں افتخار الدین کی آزاد پاکستان پارٹی کا پراپیگنڈہ سیکرٹری ہوںتو میں تسنیم کا کام کس طرح کرسکوں گا۔ میرے تایا کا استدلال یہ تھا کہ جرائم کے جو واقعات ہوتے ہیں،عدالتیں جو فیصلے کرتی ہیں اور شہر میں جو عمومی سیاسی سرگرمیاں ہوتی ہیں کیا ان کا تعلق جماعت اسلامی سے ہوتا ہے۔ میں نے کہانہیں، انہوں نے کہا بس تم یہی کام کرو گے۔ جماعت اسلامی کی خبریں میں خود تسنیم کو بھیج دیا کروں گا۔ ظاہر ہے ان کے استدلال کے سامنے میری دلیل کام نہ آئی اور چند روز بعد انہوں نے مجھے کہا کہ میں بازار سے مٹھائی لے کر آﺅں میں نے کہا آپ مجھے بتائیں کہ کیا خوش خبری ہے، خیر انہوں نے کہا کہ تم پہلے مٹھائی لاﺅ بات بعد میں بتاﺅں گا۔ خیر میں مٹھائی لے آیا اور انہوں نے روزنامہ تسنیم کی نمائندگی کا کارڈ میرے حوالے کیا۔ یہ کارڈ انگریزی میں تھا، اس پر دستخط جناب سعید ملک کے تھے جو روزنامہ تسنیم کے چیف ایڈیٹر تھے اور جماعت اسلامی پنجاب کے امیر بھی۔ بعد میں وہ مولانامودودی کی سیاسی پالیسیوں سے اختلاف کی بنا پر جماعت کی رکنیت سے مستعفی ہوگئے اور تسنیم کی ادارت بھی چھوڑ دی۔ (جاری)
تسنیم سے بطور نامہ نگار میری وابستگی تسنیم کے ایڈیٹر جناب ارشاد احمد حقانی، پبلشر جناب مصطفی صادق اور اسسٹنٹ ایڈیٹر جناب آبادشاہ پوری سے قریبی تعلقات کا باعث بنی۔ میرے والدصاحب اپنی ہوزری فیکٹری کے لئے سوت خریدنے کی خاطر مجھے لاہور بھیجنے لگے۔ میں شاہ عالم مارکیٹ اور اعظم کلاتھ مارکیٹ میں جاتا اور مختلف دکانوں سے قیمتیں پوچھ کر سوت خریدتا۔ ایک روز میں شاہ عالم مارکیٹ میں تھا کہ میری نظر ممتاز محل ہوٹل کے قریب واقع ایک عمارت پرآویزاں تسنیم کے بورڈ پر پڑی، میں یوں تو شرمیلا اور کم آمیز تھا لیکن اخبارات کے دفاتر تک جانے اور ان کے ایڈیٹروں سے ملنے میں مجھے کوئی جھجک نہیں تھی۔ میں سیڑھیاں چڑھ کر تسنیم کے دفتر میں پہنچا جہاں میری ملاقات مصطفی صادق صاحب اور ارشاد احمد حقانی سے ہوئی۔ وہ دونوں ہی میرے نام اور کام سے واقف تھے۔ دراصل شورش پاکستانی کے نام میں ایسی تعجب خیزی تھی جسے سن کر ہر آدمی ہی چونک جاتا تھا۔ مصطفی صادق صاحب نے میرا تعارف جناب سعید ملک سے کرایا۔ مصطفی صادق صاحب بعد میں میرامذاق اڑانے کے لئے یہ کہا کرتے تھے کہ یہ جب مجھے ملنے آیا تو میری میز سے تھوڑا ہی اونچا تھا۔ جب 1957 ءمیں ماچھی گوٹھ کے سالانہ اجتماع میں جماعت اسلامی کے ارکان اکٹھے ہوئے تو انتخابات میں حصہ لینے کے مسئلے پر جماعت کے اراکین دو حصوں میں بٹ گئے۔ مولانا مودودی کے حامیوں کا خیال تھا کہ مولانا کی رائے درست ہے کہ انتخابات میں حصہ لے کر اور اسمبلیوں میں پہنچ کر اسلامی نظام کے نفاذ کی منزل قریب آسکتی ہے۔ مولانا موددی کے مخالف نکتہ نظررکھنے والوں کی رائے اس سے مختلف تھی۔ ان کا خیال تھا کہ مولانامودودی نے جماعت اسلامی کی تشکیل کے وقت معاشرے میں تبدیلی اور اصلاح کے لئے جو راستہ اور لائحہ عمل تجویزکیا تھا جماعت کو اس پر ہی قائم رہنا چاہئے۔ معاشرے کی اصلاح اور افراد کی تعلیم و تربیت کا فریضہ انجام دیتے ہوئے ایسے مردان کار تیار کرنے چاہئیں جو خود تو انتخابات میں حصہ نہ لیں لیکن وہ سماج کے قدرے بہتر کردار کے لوگوں کونامزد کرسکیں کہ وہ انتخابات میں حصہ لیں لیکن مولانا موددی اپنی رائے پر ڈٹے رہے اور انہوں نے اپنے سے اختلاف کرنے والوں کی کوئی بات نہ سنی۔ اس اجتماع میں جناب مصطفی صادق نے اپنے موقف کے حق میں ایک قرار داد بھی پیش کی۔ اگرچہ انہیں ایک سو سے زیادہ ووٹ پڑے لیکن اکثریت نے مولانا کی ہاں میں ہاں ملائی۔ اس پر جناب ارشاد احمد حقانی اور جناب مصطفی صادق نے جماعت کے عہدوں اور تسنیم کی ادارت سے اپنے استعفے مولانا مودودی کو پیش کردیئے۔ مولانا نے اصرار کیا کہ آپ جلدی میں فیصلہ نہ کریں اور اپنے فرائض ادا کرتے رہیں مگر ارشاد احمد حقانی نے کہا کہ میرا منصب جماعت اسلامی کی پالیسیوں کی ترجمانی اور رائے عامہ کو اس کے حق میں ہموار کرنا ہے۔ اس بنا پر میںمدیر تسنیم کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریوں سے انصاف نہیں کرسکوں گا۔ مولانا نے بادل نخواستہ یہ استعفے منظور کرلئے۔ جب میرے تایا جماعت کے سالانہ اجتماع عام میں شرکت کے بعد ٹوبہ واپس پہنچے تو ان کے پاس جماعت کے دوسرے کارکن بھی آنے لگے۔ انہی کے پاس سے گزرتے اور آتے جاتے میرے کانوں میں ان استعفوں کی بھنک پڑی۔ میں نے فوراً ہی امروز کو خبر بھیج دی جو صفحہ اول پر شائع ہوئی اور اس کے بعد سے ٹوبہ ٹیک سنگھ ڈیٹ لائن سے جماعت اسلامی میں اختلافات کی میری بھیج ہوئی خبریں نمایاں طور پر شائع ہونے لگیں۔ اسی دوران مجھے پتہ چلا کہ مصطفی صادق صاحب تسنیم اور جماعت اسلامی چھوڑ کر لائل پور منتقل ہوگئے ہیں اور انہوں نے مولانا عبدالرحیم اشرف صاحب کے ہفت روزہ المنبر کی ادارت سنبھال لی ہے۔ میں ایک روز کسی کام سے لائل پور گیا ہوا تھا، مجھے خیال آیا کہ کیوں نہ میں مصطفی صادق صاحب سے ملوں۔ میں جناح کالونی میں اشرف لیبارٹریز میں گیا جہاں مجھے بتایا گیا کہ وہ پہلی منزل پر دھوپ سینک رہے ہیں۔ میں بغیر کسی اطلاع کے اوپر کی منزل پر چلا گیا تو میں نے دیکھا کہ وہ ایک چارپائی پر لیٹے ہوئے خیالات میں مگن ہیں۔ میرے جانے سے ان کے غورو فکر کاسلسلہ منقطع ہوا اور وہ مجھے وہاں پا کر حیرت میں ڈوب گئے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کا گاﺅں لائل پور سے چار میل کے فاصلے پر رسالے والا ریلوے اسٹیشن کے ساتھ واقع ہے۔ رسالے والا ٹوبہ ٹیک سنگھ سے لائل پور آتے ہوئے آخری سٹیشن تھا۔ خیر رسمی باتوں کے بعد میں نے ان سے اجازت لی۔ چند ہی ہفتوں کے بعد مصطفی صادق صاحب سعید سہگل کے اخبار روزنامہ آفاق کے لائل پور میں ریذیڈنٹ ایڈیٹر مقرر ہوگئے۔ ان کے تقرر میں جناب ذکریا ساجد کا ہاتھ تھا جو اس وقت آفاق کے ہیڈ آفس میں چیف نیوز ایڈیٹر تھے اور بعد میں کراچی یونیورسٹی کے شعبہ صحافت میں پروفیسر اورپھر ترقی پا کر شعبہ صحافت کے سربراہ ہوگئے۔
روزنامہ ”تسنیم“ لاہور سے وابستگی
Mar 17, 2024