اسلام آباد (عترت جعفری) پاکستان میں این ایف سی ایواڈکے تحت وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی وسائل کی تقسیم ایک حساس معاملہ ہے اور آئی ایم ایف کی طرف سے حال ہی میں این ایف سی کے فارمولا میں رد وبدل اور صوبوں کا حصہ کم کرنے کے حوالے سے مطالبات کے سامنے آنے کے بعد سیاسی رد عمل سامنے آیا، حکومت کی طرف سے آئی ایم ایف کے سامنے وضاحت پیش کر دی گئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے اس پر سخت مخالفت کی ، تاہم یہ سوال ضرور موجود رہے گا کہ آئی ایم ایف کن بنیادوں پر این ایف سی کے فارمولا پر نظر ثانی کا مطالبہ کرتا رہتا ہے، پی ٹی آئی کے دور حکومت میں یہ معاملہ اسٹیبلشمنٹ کے پس منظر میں بھی سامنے آیا تھا، ذرائع کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا کہنا ہے مرکز سے صوبوں کو بھاری حصہ جا رہا ہے، لیکن صوبوں کی اپنی ٹیکس کلیکشن بہت ہی کم ہے، صوبوں کو اپنی ٹیکس کلیکشن کو بہتر کرنے کی طرف راغب کرنا ہوگا، تاکہ ان کا وفاق پر انحصارکم ہو ،آئی ایم ایف کا موقف ہے مرکز اگر اسی طرح صوبوںکو این ایف سی ایواڈ کے ذریعے بھاری مرحوم منتقل کرتا رہا تو وفاق کے خسارے کا مسئلہ کبھی حل نہیں ہو سکے گا، صوبوں کی کل امدن کا 80 سے 85 فیصد مرکز سے جا رہا ہے، جبکہ ان کے پاس موجود سروسز اور دوسرے امور موجود ہیں، ان سے حاصل ہونے والی کلیکشن بہت ہی کم ہے۔ صوبوں کلیکشن کو بہتر بنانے کے لیے ان پر ذمہ داری ڈالنی ہو گی اور صوبوں کو اپنی ٹیکس کلیکشن کے مشنری کی صلاحیت کو بہتر کرنے کی جانب آمادہ کرنا پڑے گا۔ 2010ء میں این ایف سی ایواڈ ہوا تھا تو اس میں یہ کہا گیا تھا کہ پانچ سال سے میں جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی شرح کو 15 فیصد پر لایا جائے گا، جو آج گر کر ساڑھے آٹھ فیصد پر آ چکی ہے۔ وفاق کی مالی ذمہ داریاں قرضوں کے حوالے سے بہت پڑھ چکی ہیں، ان کے لیے زیادہ مالی وسائل وفاق کی ضرورت ہیں۔ اس بارے میں ماہر معیشت ڈاکٹر ساجد امین سے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا آئی ایم ایف کے کہنے پر صوبوں کے حصے میں کمی نہیں ہونا چاہیے، تاہم اس بات کی بھی ضرورت ہے کہ این ایف سی کے فارمولا میں ٹیکس اور ریونیو کے ویٹ کو بڑھایا جائے، صوبوں کی ٹیکس مشنری اور سرمایہ کاری کی جائے۔