مختلف علاقوںسے لاپتہ افراد سے متعلق 90 سے زائد کیسوںکی سماعت

May 17, 2012

سفیر یاؤ جنگ
پشاور (امجد علی خان) پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس دوست محمد خان کی سربراہی میں قائم ڈویژن بنچ نے صوبہ کے مختلف علاقوںسے لاپتہ افراد سے متعلق 90 سے زائد کیسوںکی سماعت کرتے ہوئے وزارت دفاع، داخلہ، آرمی اور آئی ایس آئی سمیت دیگرحساس اداروںکو تین ہفتوں کے اندر تمام زیرحراست لاپتہ افرادجن کے خلاف ثبوت موجود ہوں انہیں انٹرمنٹ سنٹروں میں منتقل کرنے جبکہ دیگرکو رہا یا پولیس کے حوالہ کرنے کے احکامات جاری کردئیے اور متنبہ کیا کہ اگر تین ہفتوں کے بعدکسی کو بھی غیرقانونی حراست میں رکھا گیا تو تمام لاپتہ افرادکی حراست کو غیرقانونی اور غیرآئینی قرار دیا جائے گا فاضل عدالت نے آئی جی پی خیبر پی کے اور سی سی پی او پشاور سمیت تمام اضلاع کے ڈی آئی جیز کو 15روز کے اندر قائم تمام نجی عقوبت خانوں کوبندکرنے کے احکامات دئیے اور خبردارکیاکہ عدالتی احکامات پر عملدرآمد نہ کیا گیا تووہ اس غیر قانونی اور غیرآئینی اقدامات کے ذمہ دار ہوںگے بدھ کو عدالت عالیہ کے چیف جسٹس دوست محمد خان اور جسٹس وقار احمد سیٹھ پر مشتمل ڈویژن بنچ نے90 سے زائد لاپتہ افراد سے متعلق دائر رٹ حبس بے جا درخواستوںکی سماعت شروع کی تو اس موقع پر ہوم سیکرٹری اعظم خان، آئی جی محمد اکبر خان ہوتی، سی سی پی او پشاور امتیاز الطاف، وفاقی ایڈیشنل سیکرٹری دفاع میجرجنرل راجہ عارف نذیر، وفاقی ایڈیشنل سیکرٹری داخلہ عارف اکرام، جی ایچ کیو راولپنڈی سے بریگیڈئر نوبہار، ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا، آئی جی ایف سی کے نمائندے، ڈپٹی اٹارنی جنرل اقبال خان مہمند، ایڈووکیٹ جنرل خیبرپی کے اسد اللہ چمکنی سمیت دیگر متعلقہ افسران عدالت میں پیش ہوئے اس موقع پرہوم سیکرٹری نے عدالت کو بتایا کہ ایڈ اینڈ سول پاور ریگولیشن کے تحت 24 گھنٹوں میں گرفتار افرادکو انٹرمنٹ سنٹر منتقل کیا جاتا ہے اور روزانہ کی بنیاد پر 16بندوںکو منتقل کیا جا رہاہے اس پرچیف جسٹس دوست محمد خان نے کہا کہ ان پر بھی آپ لوگ عملدرآمد نہیںکررہے جبکہ اس لاءکے خلاف دو درخواستیں ہمارے پاس پڑی ہوئی ہیں جبکہ چیف جسٹس نے سی سی پی او اور آئی جی کومخاطب کرتے ہوئے کہاکہ ہمارے پاس معلومات ہیںکہ پولیس نے 20 سے زائد نجی عقوبت خانے قائم رکھے ہیں جہاں غیر قانونی طور پر لوگوںکو رکھا جاتا ہے ہم آخری واننگ دیتے ہیں کہ تمام غیرقانونی ٹارچرسیلز کو فوری طور پر بند کیا جائے اس پر سی سی پی او نے عدالت کو یقین دلایا کہ اس کے بعد عدالت کو نجی عقوبت خانوں سے متعلق کوئی شکایت موصول نہیں ہو گی چیف جسٹس دوست محمد خان نے ایڈیشنل سیکرٹری دفاع کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ بہت سارے لاپتہ شہریوںکے کیسوں میں لاعلمی کا حلفیہ بیان جمع کرایا جاتا ہے لیکن بعد میں وہ جھوٹ ثابت ہو جاتا ہے آپ اس معاملہ کو پارلیمانی کیمٹی پر نہ چھوڑیں کیونکہ ان کی میٹنگ میں اکٹھا ہونا ہی مشکل ہے آپ لاپتہ افرادکے مسئلہ کو حل کریں۔ چیف جسٹس دوست محمد خان نے ایڈیشنل چیف سیکرٹری فاٹا کو مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ فاٹا میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے جو افراد پکڑے گئے ہیں ان کا ٹرائل کر کے سزا دیں اگر ان کے خلاف ثبوت موجود ہیں۔ جی ایچ کیو کے بریگیڈئر نوبہار کو چیف جسٹس دوست محمد خان نے مخاطب کرتے ہوئے کہاکہ آپ کیوں نوٹیفائی نہیںکرتے جو لوگ آپ کے زیرحراست ہیں تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ان کے پیارے کہاں ہیں جن شہریوں کو بغیر کسی وجہ کے سالوں تک حراست میں رکھا گیا ان کے خاندانوں کیلئے کیا معاوضہ ادا کریںگے اور ان اہلکاروں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت کارروائی کریںگے جنہوں نے ایسے افراد کو سالوں تک غیرقانونی حراست میں رکھا، اس موقع پر لاپتہ افراد سے متعلق ہیومن رائٹس کمشن کی سربراہ آمنہ جنجوعہ عدالت میں پیش ہوئی اور عدالت کو بتایا کہ ان کا شوہر سات سالوں سے 111 بریگیڈ راولپنڈی کے زیرحراست ہیں جبکہ12سولاپتہ افراد ہیں۔ ان لاپتہ افراد سے متعلق نہ توپارلیمنٹ اور نہ ہی عدالت کچھ کررہی ہے ہم نے پارلیمنٹ کے باہر احتجاجی کیمپ بھی لگائے لیکن ان کی کوئی شنوائی نہیں ہورہی ہے۔ اب آپ ہی ہماری امید کی کرن ہےں اس پر چیف جسٹس دوست محمد خان نے کہاکہ آئین کے تحت پارلیمنٹ سپریم ادارہ ہے لیکن جو بنیادی عنصر ارادہ کا ہے وہ موجود نہیں، انہوں نے کہا کہ سکیورٹی ایجنسیاں آئین کا احترام کرنا سیکھیں اور چھاپوں میں حساس اداروں کی مدد نہ کرےں بصورت دیگر جو بھی عدالتی ہدایات اور احکامات کے خلاف ملوث پایا گیا تو انہیں متعلقہ قانون کے تحت نمٹا جائے گا۔ وزارت دفاع، داخلہ ،تمام مسلح فورسز اور حساس اداروں نے یقین دہانی کرائی کہ وہ عدالتی احکامات پر عمل کریںگے۔ فاضل عدالت نے کہاکہ بریگیڈئر نوبہار نے عدالت کو یقین دہانی کرائی ہے کہ تمام لاپتہ افرادکی لسٹ تیارکی جائے اور وہ شہری جنہیں بغیر ثبوت کے حراست میں رکھا گیا ان آفیسرز جو اس کے ذمہ دار ہوںگے انہیں آرمی ایکٹ کے تحت استثنیٰ نہیںدیا جائے گا۔ فاضل عدالت نے سماعت 26 جون تک ملتوی کر دی۔
مزیدخبریں