صوبہ خیبر پی کے صوبائی حلقہ انتخاب 95 دیر میں الیکشن کے موقع پر صنفی امتیاز کی بدترین مثال اس وقت سامنے آئی جب حلقے کی 47 ہزار سے زیادہ خواتین کو ووٹ ڈالنے کے آئینی اور قانونی حق سے محروم کر دیا گیا۔ یہ ظالمانہ اور غیر منصفانہ اقدام جس جرگے نے کیا جس میں مذہبی جماعتوں کے رہنما بھی شامل تھے اور خود کو لبرل اور آزاد خیال کہنے والے قائدین بھی‘ یہ وہ لوگ ہیں جو سیرت پاک اور قرآن مجید سے انسانوں کی مساوات اور شخصی آزادی کا درس دیتے ہیں اور مرد و زن میں کسی صنفی امتیاز کو رد کرتے ہیں۔ امہات المومنینؓ اور خاتون جنتؓ کی حیات مبارکہ سے عورتوں کو اسلامی معاشرے میں ہر طرح کی آزادی اور دور جہالت کی بدترین غلامی سے نجات کا مژدہ سناتے ہیں اور اسلام کو عورتوں کا سب سے بڑا محافظ بتاتے ہیں۔ جس نے عورتوں کو ذلت سے نکال کر عزت و حرمت عطا کی۔
جرگے میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو خود کو جمہوریت کا سب سے بڑا علمبردار قرار دیتے ہوئے ملک بھر میں مردوں اور عورتوں کے تمام حقوق کے تحفظ کا اعلان کرتے ہیں۔ عورتوں کو تجارت‘ سیاست اور وراثت میں وہ تمام حقوق عطا کرنے کا درس دیتے ہیں جس کی اجازت‘ مذہب‘ قانون اور آئین دیتا ہے۔ جرگے میں پڑھے لکھے آزاد خیال ماڈرن دنیا کے معاشرے کے نقیب جماعتوں کے رہنما بھی شامل تھے۔ جو زندگی کے ہر میدان میں عورتوں کو برابر کے حقوق دینے کے دعوی دار ہیں اور اس کیلئے سڑکوں پر آنے سے بھی گریز نہیں کرتے‘ کہاں گئے ان سب کے دعوے کیا یہ سب غلط بیانی کرکے عورتوں کو بے وقوف بناتے رہے ہیں۔ اگر کراچی‘ لاہور‘ اسلام آباد‘ ملتان‘ کوئٹہ‘ سبی‘ سکھر‘ حیدر آباد‘ راولپنڈی‘ پشاور‘ مردان‘ ڈی آئی خان‘ راجن پور‘ جھنگ اور چمن میں انہی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ ڈالنے کیلئے خواتین باہر آسکتی ہیں۔ ووٹ ڈال سکتی ہیں۔ ان جماعتوں کے احتجاجی و حمایتی جلسے اور جلوسوں میں باپردہ اور بے پردہ عورتیں شرکت کر سکتی ہیں۔ تو کیا وجہ ہے کہ دیر کے اس حلقے میں ان تمام جماعتوں کے عمائدین نے مشترکہ طور پر ایک ایسے فیصلے پر دستخط کئے جس سے اس ملک کی آدھی آبادی کے حقوق کی نفی ہوتی ہے۔ قانون‘ انصاف اور آئین اس ناانصافی پر خاموش کیوں ہے۔ کوئی موثر اور توانا آواز اس ناانصافی کے خلاف بلند کیوں نہیں ہوئی۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں‘ این جی اوز‘ عورتوں کے حقوق کے نام پر وزارتیں اور لاکھوں کے فنڈ لینے والی بیگمات‘ عظمت نسواں اور حجاب کے نام پر جلسے جلوس اور سیمینار کرنے والی تنظیمیں اور خواتین کو کیوں سانپ سونگھ گیا ہے۔ اس جدید دور میں ملک کی نصف آبادی کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنے سے روکنے کی یہ سازش اگر آج ہی نہ روکی گئی اس پر کوئی موثر ایکشن نہ لیا گیا تو خطرہ ہے کہ کل کسی اور جگہ بھی یہ لوگوں کو جو عورت کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے اسکے وہ حقوق جو اسلام نے قانون نے آئین نے انہیں عطا کئے ہیں نہیں دئیے۔ وہ شیر ہو جائیں گے اور ملک کی نصف آبادی کو عضو معطل بنا کر رکھ دیں گے۔ کیونکہ انکے نزدیک یہ ناقص العقل مخلوق مردوں کے برابر نہیں اسی لئے وہ عورتوں کو تعلیم سے دور رکھتے ہیں۔ جائیدادوں میں حصہ نہیں دیتے۔ صرف مبلغ 32 روپے حق مہر کے عوض انہیں گھروں میں غلام بنا کر رکھتے ہیں جس کا معاوضہ صرف روٹی اور کپڑے کی شکل میں دیتے ہیں۔ کسی معاملے میں ان کو زبان کھولنے کی اجازت نہیں ہوتی اور یہ امتیازی سلوک قوم کی ما¶ں‘ بہنوں اور بیٹیوں کے ساتھ رکھ کر وہ اسے نام نہاد غیرت کا نام دیتے ہیں۔ قتل یا اغوا اور زیادتی کے کیسوں میں عورتوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح معاوضے میں خریدا اور فروخت کیا جاتا ہے۔
حلقہ پی کے میں جماعت اسلامی‘ جمعیت علمائے اسلام‘ مسلم لیگ (ن)‘ پیپلز پارٹی‘ قومی عوامی اتحاد (شیرپا¶) تحریک انصاف جیسی روشن خیال سیاسی و مذہبی جماعتوں کے رہنما¶ں‘ جس معاہدے پر دستخط کئے۔ کیا انہوں نے اپنی جماعتوں کے رہنما¶ں سے اسکی اجازت لی تھی۔ علاقائی مصلحت‘ سماجی حالات اور مقامی رسم و رواج کی آڑ میں اب اس غلط اقدام کی نجانے کیا کیا تشریح کی جائیگی۔ اپنی اپنی مجبوریاں بیان کی جائیں گی مگر یہ سب کیا اس غلامانہ سلوک سے بدتر اقدام کا مداوا ہو سکتے ہیں۔ جس نے لاکھوں انسانوں کے جذبات کو مجروح کیا ہے۔ سندھ کی شاعرہ امرسندھو نے ایسے ہی حالات کی عکاسی کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے۔ ....
گناہ ثواب جب برابر ہوں
کیسے مانو کے کوئی بر تر ہے
پر جہاں پہ مجھے حقوق ملیں
نصف بہتر ہی میرا برتر ہے
ہمارے معاشرے میں خواتین کو آئین‘ قانون اور اسلام کے عطا کردہ حقوق اور انصاف دلانے کیلئے عدالتوں‘ مقامی انتظامیہ‘ ان سیاسی جماعتوں‘ خود حکومت اور الیکشن کمشن کو اس حرکت پر ایکشن لیتے ہوئے اس حلقے کے انتخاب کو کالعدم قرار دینا چاہئے اور دوبارہ پولنگ میں خواتین ووٹروں کی شرکت یقینی بنانی چاہئے۔ اسکے ساتھ ہی آئندہ ایسے کسی بھی اقدام پر سخت قانونی کارروائی کو یقینی بنایا جائے۔ ورنہ امرسندھو جیسی خواتین کہتی رہیں گی۔ ....ع
میں آدھی ہوتے بھی سزا¶ں کی پوری حقدار ہوں
کیونکہ جنس کے ترازو میں میرا گناہ پورا
اور سچ کی گواہی آدھی تولی جاتی ہے
آفرین ہے لوئر دیر کی ان باہمت پرقعہ پوش خواتین پر جنہوں نے اس غیرمنصفانہ طرز عمل کیخلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنے حقوق کی آواز بلند کی۔ جس پر اے این پی کے رہنما اسفندیار ولی نے معاہدہ پر دستخط کرنیوالے اپنی پارٹی کے عہدیداروں کو نکالنے کا اعلان کیا ہے۔ آئیں ہم سب مل کر اپنے نصف کو بھی وہ حقوق عطا کریں‘ جن پر انکا حق ہے۔