میں ووٹ دینے گئی تھی

May 17, 2013

رفعت

ہارنے والے سیاستدانوں کے لئے مجھے اتنا کہنا ہے کہ آپ جو اس قدر دھرنے دیئے جا رہے ہیں اور اپنے زعم میں ہیں کہ آپ کے ساتھ زیادتی ہو گئی ہے۔ دیکھئے میں بھی ووٹ ڈالنے گئی تھی آپ سے کہنے کا حق رکھتی ہوں کہ یہ آنکھوں دیکھا حال حقیقت ہے۔ ایک بچی کے ساتھ میں باہر نکلتی ہوں پیدل جانا ہو تو ہاتھ میں لاٹھی پکڑ لیتی ہوں۔ اس بار میرے ساتھ میری بہو بھی تھی میں اپنے اعلیٰ سکول میں پڑھتے پوتے کو ساتھ لے گئی کہ وہ عورتوں کے ہجوم میں میری مدد کر دے گا۔ ہم نے اپنے ووٹ کی پرچی حاصل کی انگوٹھے کے ناخن پر سیاہی کا نشان لگوایا اور لاٹھی کے سہارے کھڑی ہو گئی....میں ووٹ ڈالنے والے بوتھ پر تیسرے نمبر پر کھڑ ی تھی۔ پہلی خاتون گھریلو ان پڑھ عورت تھی۔ اس کے ہاتھ میں ووٹ والا کاغذ تھا کہ خاتون نے بوتھ کی طرف اشارہ کر کے کہا اندر جا کے بلے تے ٹھپہ لگا دیں۔ بلے تے.... خاتون اندر سے واپس آئی کاغذ اور مہر اس کے ہاتھ میں تھی ۔ وہ کہنے لگی اندر تے کوئی بلا نہیں پیا او کتھے اے؟ میز کے گرد بیٹھا عملہ ہنسنے لگا....پھر ایک خاتون نے مہر پکڑ کر کاغذ پر دو جگہ مہر لگائی اور اسے کہا لے لیں.... اس نوں چٹے بکس وچ پا دے تے دوجی نوں ہرے وچ۔
پر میں تے اس بندے نوں ووٹ دینا اے.... ایہہ اک بندے دا ناں دو تھاں لکھیا ہویا اے تے اک ای بندہ....بمشکل یہ بی بی پوری ہوئیں تو دوسری جانب بھی یہی سوال تھا کہ تسی دوتھاں مہر لاﺅن نوں آکھدے او اسی تے اکو نوں ووٹ پانا اے۔ تب عملہ کی خاتون نے اس کے بیلٹ پیپر پر بھی دو ٹھپے لگائے اور کاغذ تہہ کر کے اسے تھما کر کہا چل ایہہ ہرا ہرے وچ پا دے تے چٹا چٹے وچ۔ (یوں تو اپنے چھوٹے میاں صاحب بھی سفید اور سبز کاغذ غلط بکسوں میں ڈال آئے تھے)
مجھے یہ کہنا ہے کہ عورتوں کا ہجوم تھا اور اگر وہ عملہ بے ایمانی کر سکتا تو اسے کسی اور امیدوار پر مہر لگوا دیتا۔ کون دیکھ رہا تھا یہ لوگ جو اب دھرنا دے رہے ہیں۔ یہ سمجھتے رہے کہ ہر انگلش سکول کالج کی سٹوڈنٹ ان کی ووٹر ہے اور وہ اسے ہی ووٹ ڈالے گی۔ مجھے یہ بتائیے یہ جو مائیں، نانیاں دادیاں محلوں سے اٹھ کر آئی تھیں جن کی کوئی تربیت نہیں تھی ان کے مرد انہیں یا تو کسی پڑھی لکھی لڑکی کے ساتھ اندر بھیجتے یا انہیں نہ جانے دیتے ۔ اب کیا خبر کسی بوتھ کے عملہ نے اپنی پسند کے آگے مہر لگا کر ایسی خواتین سے اپنا شوق پورا کر لیا ہو۔ مجھ پر انہوں نے اعتراض کیا کہ آپ اس بچے کو کیوں ساتھ لائی ہیں۔ میں نے کہا اس لئے کہ میں آپ سے مہر لگوانے کو نہ کہوں یہ میری مدد کر دے گا اور میرے پوتے نے کاغذ ہوا میں لہرا کر خشک کئے اور تہہ کر کے بکس میں ڈال دیئے اور ہم اس کی امی کا انتظار کئے بغیر باہر آگئے۔ ہم اپنے امیدوار کو ووٹ کاسٹ کر آئے تھے ۔ اس بار یہ بھی دیکھا کہ کسی بھی پارٹی نے خواتین خصوصاً اپاہج اور حاملہ بیبیوں کے لئے کوئی بیٹھنے کا انتظام نہیں کر رکھا تھا اگر کوئی عورت لائن میں سے نکل کر کسی سیڑھی پر بیٹھ جاتی تو اسے لائن سے نکال دیا جاتا۔ جہاں میں نے ووٹ دیا وہاں ایک ہی کمرے میں تین چاربوتھ تھے دروازہ ایک تھا اور اندر رش کا اندازہ آپ خود لگا سکتے ہیں۔ امیدواروں کو تو اتنا بھی نہ ہوا کہ اس دھوپ میں کہیںسائبان لگوا دیتے۔ خواتین اور ننھے بچے دھوپ سے بچ جاتے جن پر مائیں اپنے دوپٹوں کے پلو رکھ رکھ کر انہیں چپ کرا رہی تھیں مگر جو بی بی ذرا باہر لائن سے نکلتی بچے کا حلق گیلاکرنے کو اسے دودھ پلانے لگتی اس کا لائن میں نمبر نکل جاتا۔۔
آپ سب کیسے سفاک امیدوار تھے ووٹ بھی مانگ رہے تھے اور بچوں اور ماﺅں کو کربلا میں بٹھا کر ان کا امتحان بھی لے رہے تھے۔ میں ووٹ ڈال آئی تھی اور اب اپنی بہو کا انتظار کر رہی تھی۔ اس لئے میں تفصیل سے دیکھتی رہی۔ آپ لوگوں سے صاف صاف کہنا چاہتی ہوں کہ آپ لوگ حق دار ہی نہیں تھے کہ عوام سے ووٹ مانگتے یا آپ کو پتہ ہی نہیںکہ دھوپ اور گرمی کیا بلا ہے۔ ؟؟ آپ اپنے گریبانوں میں کیوں نہیں جھانکتے کہ آپ کیا عمل کر رہے ہیں اور کیوں؟؟ ایک عوام ہیں کہ وہ لوڈ شیڈنگ اور مہنگائی سے تنگ آئے ہوئے باہر نکل آئے تھے کہ اب نئے لوگ آ کر ہمیں بجلی دیں گے ہمارے گھر روشن ہوں گے۔ ہمارے گھر پنکھے چلنے لگیں گے۔ مگر یہاں وہ دھوپ میں مار کھا رہے تھے آپ کو ایک ووٹ دینے کے لئے۔ ؟
کیا آپ آئندہ بھی عوام کو ایسی ہی حکومت دیںگے؟ مگر کیا کیا جائے ۔ اب تو آپ آ گئے ہیں۔ آج کل ہمارا مراعات یافتہ طبقہ۔ یعنی آپ کے ووٹر ”فیس بک“ پر تبادلہ خیالات کر رہا ہے ۔ اور دل کی بھڑاس نکال رہا ہے۔ اب آپ ذرا اس بھڑاس کے جواب کے لئے بھی تیار رہیئے۔ ”ان پڑھ لوگ واویلا نہیں کریں گے وہ اس کے لئے ہمیشہ سے ہی تیار تھے اور ہیں؟ مجھے ڈر یہ ہے کہ اب ہمارے ملک میں دو طبقے بن گئے ہیں اور یہ ایک دوسرے کو گھورتے رہیں گے۔ آپس میں مل نہ پائیں گے ایک نئی رقابت شروع ہو گئی ہے۔میں نے دوسرے شہر سے آئے ہوئے اپنے ایک عزیز پریذائیڈنگ آفیسر سے پوچھا آپ نے کتنی دھاندلی کی وہ ہنسے اور کہنے لگے
مجھے پانچ سو کچھ ووٹ پر ڈیوٹی دی گئی تھی۔ ہم نے گن کر پرچیاں لی تھیں۔ سارا دن کی سر کھپائی کے بعد پوری پرچیاں انہیں واپس کر دی تھیں۔ ہم کہاں دھاندلی کر سکتے ہیں؟ دھاندلی ہوئی ہو گی تو کسی اور جگہ مگر آپ خود دیکھیں ہمارے پاس بھی جرنلسٹ چکر لگاتے رہے انہیں بھی سارا حساب کتاب دکھا دیا تھا۔ دھاندلی وہ کرتے ہیں جو پیسہ ایک پارٹی سے کھاتے ہیں اور انہیں دلاسے دیتے ہیں کہ ہم تمہارے ہیں مگر الیکشن میں ووٹ دوسری پارٹی کو ڈلوا دیتے ہیں۔

مزیدخبریں