’’ کیا مستقبل میں جنگیں پانی پر ہوں گی‘‘

May 17, 2014

پروفیسر فہمیدہ کوثر

 پانی انسانی ضرورت ہے اور اس انسانی ضرورت کا صاف شفاف ہونا ہی صحت مند معاشرے کی دلیل ہے لیکن یہ کیسا تضاد ہے کہ پانی کی قلت نے ایک طرف تو عوام کو گٹروں سے پانی پینے پر مجبور کردیا اس کے علاوہ جو پانی عوام پیتے ہیںوہ زہریلے اجزاء کا مرکب ہوتا ہے دوسری طرف حکمران عوام سے ہی چھینے گئے ٹیکسوں سے غیر ممالک سے منگوایا ہوا منرل واٹر استعمال کرتے ہیں۔آلودہ پانی سے نہ صرف بیماریوں میں اضافہ ہوتا ہے بلکہ ترقی پذیر ممالک کی شرح کو دیکھاجائے تو ہر آٹھ سکینڈ بعد ایک بچہ مرجاتا ہے۔ ان ممالک میں 80 فیصد امراض آلودہ پانی کی وجہ سے پھیلتے ہیں۔
پاکستان بھی اُن ترقی پذیر ممالک میں سے ایک ہے جہاں آلودہ پانی کی بدولت بیماریوں کا تناسب تیزی سے بڑھ رہا ہے پاکستان اس وقت آبی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے جہاں نہ صرف پینے کے صاف پانی کی قلت انتہائی تشویشناک ہے بلکہ زرعی پیداوار کو برقرار رکھنے کیلئے بھی پانی کی بروقت فراہمی از حد ضروری ہے اس صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہمیں ہنگامی صورت میں دو اہم نکات پر کام کرنا انتہائی ضروری ہے جن میں نئے ڈیمز کے ساتھ ساتھ کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور دوسرے یہ کہ ملکی سالمیت اور استحکام کیلئے وفاق کی اکائیوں میں اس معاملہ میں اتفاق رائے پیدا کرنا ضروری ہے۔ ماہرین کے ایک محتاط اندازے کے مطابق اگر ڈیمز کی تعمیر پر کام نہ کیا گیا تو آئندہ چند سالوں میں پاکستان شدید آبی بحران کا شکار ہوجائیگا۔
 سی این آنند نے اپنی کتاب "Terbeela Damned Pakistan Tamed (تربیلا ڈیمڈ پاکستان ٹیمڈ) میں اُس ہندانہ ذہنیت کا مظاہرہ کیا ہے جسکا مقصد پاکستان کو لسانی، نسلی اور سیاسی اختلافات میں اُلجھا کر فائدہ اٹھایاجائے اور اُسے ’’ آبی جارحیت ‘‘ کی طرف دھکیل دیا جائے۔
مصنف لکھتا ہے کہ:
 ’’ پاکستان میں متعدد نسلی اور لسانی گروپ موجود ہیں… ہمیں احساس محرومی کا شکار ان تمام گروپوں کی محرومیوں اور شکایات کو اپنے فائدہ کیلئے استعمال کرنا ہوگا‘‘۔
 ہمیں ہندوئوں کے اُن عزائم سے نمٹنے کی ضرورت ہے جس کے تحت وہ پاکستان کو نیا ایتھوپیا یا صومالیہ بنانے کی سازشیں کررہے ہیں۔ اس ناول کا لب لباب یہ ہے کہ پاکستان کو ذلت آمیز شکست سے دوچار کرکے حساس ترین تنصیب تربیلا ڈیم کو نقصان پہنچایاجاسکے۔ پانی کا بحران آج کی صدی کا وہ مسئلہ ہے کہ جو انسان کیلئے چیلنج بنتا جارہا ہے۔
 زراعت سے ہماری عدم توجہی کا یہ عالم ہے کہ جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 25 فیصد ہے جبکہ اس کے برعکس تقریباً 45 فیصد افرادی قوت اس شعبہ سے وابستہ ہے۔ ماہرین کے اندازے کے مطابق 90 فیصد کھیت دریائی پانی سے فصلوں کو سیراب کرتے ہیں ہماری معیشت اور معاشرت زراعت سے منسلک ہے زراعت ہمارے معاشرے میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے لیکن ہمارے دریائوں کے ہیڈ ورکس بھارت میں ہیں لہٰذا اسی بات کو بھارت بطورِ ہتھیار استعمال کرتا ہے کتنی افسوسناک بات ہے کہ ایک طرف بھارت پاکستانی دریائوں پر بیسیوں ڈیموں کی تعمیر سے اپنے خوفناک منصوبے کو عملی جامہ پہنا رہا ہے۔ دوسری طرف ہم امن کی آشا کا راگ الاپ رہے ہیں ہمارا اس وقت کا مسئلہ تو یہ ہے کہ آبی جارحیت کو کیسے روکاجائے۔
بھارت سرعت سے ڈیمز تعمیر کر رہا ہے اُس نے مقبوضہ کشمیر میں بھی جگہ جگہ ڈیمز بنا کر ہمیں تباہ کرنے کا پورا منصوبہ بنایا ہوا ہے جب بارشیں زیادہ ہوں تو بھارت لاکھوں کیوسک پانی چھوڑ دیتا ہے جس سے زرعی رقبہ دریا بُرد ہوجاتا ہے قیام پاکستان کے وقت یہ مسئلہ اس قدر سنگین نہ تھا لیکن بڑھتے ہوئے موسمیاتی اثرات کے باعث کم ہوتے ہوئے پانی کے ذخائر اور بد انتظامی کی وجہ سے پاکستان رفتہ رفتہ اس قدرتی نعمت سے محروم ہورہا ہے۔اس وقت یہ صورتحال ہے کہ اگر ہم نے بروقت اقدامات نہ کئے اور پانی کو بچانے کیلئے مناسب اقدامات کے ساتھ ساتھ ڈیمز تعمیر نہ کئے تو آگے چل کر ہم پانی کے قطرے قطرے کیلئے محتاج ہوجائیں گے۔
 ہماری مجرمانہ غفلت تو یہ ہے کہ ہم تربیلا اور منگلا ڈیم کے بعد کوئی بڑا ڈیم نہ بناسکے یہ مقامِ عبرت ہے کہ ہمارے حکمران اس بڑے مسئلہ سے نبرد آزما ہونے کی بجائے ایک دوسرے سے بدست و گریباں رہے جبکہ دوسری طرف ہندوئوں نے آبی جارحیت کے خوفناک منصوبے پر عملدرآمد شروع کردیا۔ ان حالات میں سوال تو یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا مستقبل میں جنگیں پانی پر ہوں گی۔
ایسی صورتحال میں پاکستان اور بھارت کا مل بیٹھ کر اس مسئلہ کو منصفانہ بنیادوں پر حل کرنا ضروری ہے تاکہ خطے میں ایٹمی جنگ کے خطرے کو روکاجاسکے ہمیں قومی مفاد کو مدّنظر رکھتے ہوئے اس ڈیم کی ضرورت ہے جس کے تحت بھارت کی آبی جارحیت کا مقابلہ کیاجاسکے۔

مزیدخبریں