حکومت کے گیارہ ماہ میں رعایا کے ہاتھ تو کچھ نہیں لگا‘ اُمید اور نااُمیدی ساتھ ساتھ چل رہی ہے۔ تین ہفتے بعد دوسرا بجٹ پیش ہونے جا رہا ہے۔ سرکار کے ملازموں کو مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافے کی نوید مل چکی ہے۔ بعد از بجٹ تنخواہوں میں اضافے کے تناسب سے مہنگائی میں اضافے کا رونا شروع ہوگا۔ بجٹ سے پہلے نئی باتیں کم پرانی باتوں کا اعادہ زیادہ ہوتا ہے۔ ہر وزیرخزانہ نے ہمیشہ ہی کہا کہ بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا بلکہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دی جائے گی۔ رواں مالی سال کے بیس ماہ میں1745 ارب کے ٹیکس جمع ہوئے ہیں۔ زرمبادلہ کے ذخائر تین ارب سے 13 ارب ڈالر تک جا پہنچے ہیں۔ اسحاق ڈار کو اُمید نہیں یقین ہے کہ یہ ذخائر ستمبر تک 15 ارب ڈالر ہو جائیں گے۔ اتنے سارے ڈالروں کا مصرف کیا ہوگا‘ یہ وہ جانتے ہیں یا پھر ان کے باس وزیراعظم نوازشریف۔ غربت‘ مہنگائی اور بیروزگاری وہ پہاڑ ہیں جو اپنی جگہ سے کبھی نہیں ہل سکتے۔ کوئی بڑا سیاسی اور معاشی زلزلہ ہی ان پہاڑوں کو آگے پیچھے کر سکتا ہے۔ تنخواہوں میں متناسب اضافہ کا اعلان کرکے وزیرخزانہ نے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ کو تسلیم کر لیا ہے۔ آٹے کی مہنگائی کیس میں عدالت عظمیٰ کے ریمارکس عوام کے جذبات کی عکاسی کرتے ہیں۔ حکمران اشیاء کی قلت پیدا کرکے قیمتیں بڑھا دیتے ہیں۔ آلو کی قیمت کو 70 روپے تک کس نے پہنچایا۔ سال میں کئی بار ٹماٹر کی قیمت ناقابل خرید ہو جاتی ہے۔ یہ کیسی اسلامی جمہوریہ پاکستان ہے جس میں ایک خاتون نے اپنے بچوں کو بھوک کے باعث نہر میں پھینک دیا۔ وزیراعظم کیلئے ملک کی اقتصادی کارکردگی پر آئی ایم ایف کا اطمینان بڑی اہمیت رکھتا ہوگا‘ لیکن اصل بات تو رعایا کے اطمینان کی ہے۔ ڈالر کی قیمت میں کمی اور روپے کے نرخ میں آنے والی بہتری کے باوجود گرانی اور عوام کی تلخیٔ حالات میں کوئی کمی نہیں آئی۔ آئی ایم ایف نے بجلی کی سبسڈی ختم کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ آئی ایم ایف کا مشورہ بھی ہمارے لئے حکم کا درجہ رکھتا ہے۔ سبسڈی ختم ہونے سے بجلی کی قیمت نچلے طبقے کی پہنچ سے بالکل باہر ہو جائے گی۔ لوڈشیڈنگ نے پہلے ہی بُرا حال کر رکھا ہے۔ صرف ایک میگاواٹ کی قلت سے ٹیکسٹائل سیکٹرکو سالانہ ایک ارب روپے کا نقصان برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ کالاباغ ڈیم تعمیر نہ کرنے سے ملک کو سالانہ 180 ارب کا نقصان ہو رہا ہے۔ لوڈشیڈنگ کا دورانیہ بیشتر علاقوں میں بارہ گھنٹے جبکہ دیہات میں 18 سے 20 گھنٹے یومیہ تک جا پہنچا ہے۔ بجلی چوری اور اووربلنگ کو روکنے میں حکومت نے اپنی ذمہ داری پوری نہیں کی۔ نئے پراجیکٹ تو اگلے چار سال بعد کام کریں گے‘ اب کیا کام ہو رہا ہے۔ عابد شیر علی کی بڑھکوں کے باوجود بااثر افراد‘ کارخانوں اور فیکٹریوں میں بجلی چوری کا سلسلہ پورے زور و شو سے جاری ہے۔ بجلی کی تقسیم پر مامور کمپنیاں اپنے بدعنوان اہلکاروں کی ملی بھگت سے بجلی چوری کو لائن لاسز شمار کرکے اس کی قیمت اووربلنگ کی صورت میں صارفین سے وصول کر رہی ہے۔ ابھی تک عوام کو 5 سے 7 سال بعد وافر بجلی فراہم کرنے کی خوشخبریاں سنائی جا رہی ہیں۔ جون 2013ء کے بجٹ میں حکومتی آمدنی کاہدف 2.475 کھرب روپے مقرر ہوا تھا۔ ستمبر میں جسے گرا کر 2.345 کھرب کردیا گیا۔
اب تیسری بار ہدف مزید گرا کر 2.275 کھرب کر دیا گیا ہے۔ 200 ارب روپے کی کمی کیوں کی گئی ہے؟ بجٹ میں خسارے کے ذمہ دار زیادہ تر نادہندگان ہیں۔ ٹیکسوں کی عدم ادائیگی اور یوٹیلٹی بلوں کی کم وصولی سے بجلی کی تقسیم کار کمپنیوں کا خسارہ بڑھتا جا رہا ہے۔ ان کمپنیوں کی نجکاری کی بات کی جائے تو مزدور احتجاج پر اتر آتے ہیں۔ نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات بھی مسلسل خسارے اور ورکرز کے احتجاج کے بعد تاریخ کا حصہ بن گئے۔ 480 ارب کے گردشی قرضے چکانے کے بعد بھی لوڈشیڈنگ کا وہی حال ہے۔ غیر ادا شدہ بل اور بجلی کی چوری کا حل کون تلاش کرے گا۔ پرائیویٹ بس میں ایک مسافر بھی بغیر ٹکٹ سفر نہیں کر سکتا‘ لیکن سرکاری اداروں کے ساتھ صارفین یہ بے دردی کیوں کرتے ہیں؟ عابد شیر علی نے 30 مئی تک 33 ارب روپے وصول کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ غیر ادا شدہ بلوں کی مالیت 500 ارب روپے ہے۔ ان میں تین چوتھائی بل نجی شعبے کے ذمے ہیں۔ کوئی حکومت بھی نادہندگان پر آہنی ہاتھ نہیں ڈال سکی۔ بینکوں کے نادہندگان کا شور اٹھا اور پھر دب گیا۔ نیب کے پاس نادہندگان کے اتنے کیس ہیں کہ ایک ضخیم کتاب مرتب ہوسکتی ہے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے اثاثوں پر بھی کوئی حکومت ہاتھ نہیں ڈال سکی۔ کالا دھن ہو یا بیرون ملک اثاثے‘ ان سب کے بارے میں رقوم قیاس پر مبنی ہوتی ہیں۔ ہمیں تو اپنی صحیح آبادی کا بھی علم نہیں۔ سارے سرکاری اعدادوشمار زیادہ تم فرض یا قرض پر مبنی ہوتے ہیں۔ افراط زر کی صحیح شرح کبھی سامنے نہیں لائی گئی۔ سوئس بینکوں کی تفصیلات کا بھی کسی کو علم نہیں۔ سوئس بینکوں سے 60 ارب ڈالر کون لا سکا اور کون لا سکے گا‘ شریف حکومت نے اگلے چند برسوں میں 45 ارب ڈالر کے قرضے لینے کیلئے معاملات طے کئے ہیں۔ حکومت نے اپنے ابتدائی ایام میں آئی ایم ایف سے 6.4 ارب ڈالر کا قرضہ منظور کرا لیا تھا۔ حکومت کے دو اہداف صاف طورپر دکھائی دے رہے ہیں۔ قرضے بڑھائے جانا اور قومی اثاثوں کی نیلامی‘ ٹیکس چوروں کیلئے ایمنسٹی سکیموں کا اجراء بھی حکومت کے ایجنڈے میں شامل ہے۔ 2014-15ء کے بجٹ کا سائز 2.475 کھر ب سے زیادہ ہوگا۔ زرمبادلہ کے ذخائر 30 جون تک 15 ارب ڈالر ہو جائیں گے۔ ہم تو زرمبادلہ کے ذخائر کے معاملے میں بنگلہ دیش کے ہم پلہ بھی نہ ہو سکے۔ بنگلہ دیش کے پاس 20 ارب ڈالر کے ذخائر ہیں۔ پاکستان نے پہلی بار عالمی سٹاک مارکیٹ میں یورو بانڈ جاری کئے ہیں جن پر شرح منافع 7.25 فیصد اور 8.25 فیصد ہے۔ ڈالر 113 روپے سے گر کر 98 روپے ہو گیا‘ لیکن 19 کروڑ افراد کیلئے کیا فائدہ ہوا۔ آلو جیسی ادنیٰ سبزی بھی 60‘ 70 روپے کلو بکنے لگی۔