برطانوی اخبار ’’دی میل‘‘ نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ فوج کی طرف سے نظام پر قبضہ نہ کرنے کی سیاسی یقین دہانیاں موجود ہیں۔ فوج اور سویلین حکومت میں مشترکہ طور پُرامن کے حصول کیلئے بندوق کی بجائے بات چیت کا راستہ اپنانے پر اتفاق ہے۔ پاکستان کے آرمی چیف کی تقریر اور وزیراعظم کے انٹرویو سے واضح ہے کہ فوج سویلین حکومت کی پُشت پر ہے۔ عمران خان کی طرف سے حکومت مخالف احتجاج کی منصوبہ بندی کا مقصد موجودہ انتظامیہ کو کمزور کرنا ہے۔ رپورٹ کے مطابق عمران خان کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ہر دعویٰ کیلئے ثبوت چاہئے، حقائق کے بغیر رائے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔ پاکستان میں انتخابی نتائج تشویش کا باعث رہے ہیں جس کے حل کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو آن بورڈ رکھنے کی ضرورت ہے‘ پاکستانی سرزمین پر مخالف جمہوری قوتوں کی موجودگی کو دیکھتے ہوئے اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عمران خان کا انتخابی نتائج میں دھاندلی ثابت کرنے کا ایجنڈا خطرناک ہو سکتا ہے جس میں حکومت کی برطرفی بھی شامل ہے۔ لیکن عمران خان کا یہ بیان بہت خوش آئند ہے کہ پُرامن احتجاج ہمارا حق ہے۔ تحریک انصاف کے قائد نے کہا ہے کہ وہ صرف احتجاجی جلسہ منعقد کرکے اپنی طاقت کا اظہار کر رہے ہیں ان کا احتجاج حکومت گرانے یا وسط مدتی انتخابات کیلئے نہیں ہے بلکہ سسٹم کو ٹھیک کرنے کیلئے ہے۔ اسلام آباد کے ڈی چوک میں تحریک انصاف کے جلسے سے خطاب کرتے ہوئے چیئرمین عمران خان نے چارٹر آف ڈیمانڈ بھی پیش کیا۔ نجی ٹی وی چینل کے خلاف بھی خوب برسے انہوں نے اپنی تقریر میں حکومت کی کارکردگی پر سخت تنقید کی۔ انہوںنے کہا الیکشن کمشن تحلیل کرنے، زیر التوا انتخابی عرضداشتوں کا پانچ دن میں فیصلہ کرنے اور شفاف انتخابی اصلاحات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ایک سال میں مہنگائی‘ بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ بڑھ گئی‘ چالیس چور پکڑنے کے دعویداروں نے ایک چور بھی نہیں پکڑا، حکمران سرمایہ واپس لے آئیں تو دس سال ٹیکسوں کی ضرورت نہیں۔ 11 مئی کو میچ فکسنگ کرنے والے میدان میں آئیں‘ مینڈیٹ چوری کرنے والوں کو سزا ملنی چاہیئے۔ خیبر پی کے حکومت میں ایک روپے کی ٹیکس چوری نہیں کی، آئندہ انتخابات بائیو میٹرک سسٹم پر کرائے جائیں اور نگران حکومت شفاف ہونی چاہئے‘ انتخابی اصلاحات کیلئے تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لیکر چلیں گے۔
11 مئی کے انتخابات سے قبل سیاسی تجزیہ نگاروں کی پیش بینی پر تھی کہ ملک میں کسی بھی جماعت کو سادہ اکثریت حاصل نہیں ہو گی۔ اگر ایسا ہوتا تو ملک کا سیاسی منظر نامہ یکسر مختلف ہوتا‘ جس کی وجہ سے بعض سیاستدانوں اور مبصرین کا خیال ہے کہ آخری وقت میں انتخابی نتائج میں تبدیلی کی گئی ہے۔ انتخابی شفافیت کے امتحان کا ایک طریقہ یہ ہے کہ نادرا کے ڈیٹا کے ذریعے بیلٹ پیپروں کے کاؤنٹر فائل کا جائزہ لے لیا جائے۔ اس سلسلے میں جن نشستوں کا انتخابی ٹریبونل نے جائزہ لیا اس کے بعد بہت سے شواہد سامنے آ گئے جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ غیر جانبدار الیکشن کمشن بھی شفاف انتخابات کی ضمانت نہیں دے سکا۔ اس سلسلے میں تو کراچی کا تجربہ بڑا عجیب و غریب ہے اس شہر میں تو انتخابی عمل کو کراچی کی مسلح تنظیم نے لوٹ لیا۔ الیکشن کمشن کراچی میں مفلو ج بن گیا۔ کراچی میں انتخابی دھاندلی کی وجہ سے دوسرے مرحلے پر جزوی پولنگ ہوئی‘ لیکن کراچی میں انتخابی ڈاکے کو تقریباً تمام سیاسی جماعتوں نے نظر انداز کر دیا۔ انتخابات کے نتیجے میں پاکستان تحریک انصاف پاکستان کی تیسری بڑی سیاسی جماعت بن کر سامنے آئی ہے۔ یہی جماعت ملک میں غیر شفاف انتخابات کے انعقاد کو چیلنج کر رہی ہے۔ ملک میں اور بھی سیاسی جماعتیں ہیں جن میں سابق حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی ہے جس کے قائد نے ان انتخابات کو ریٹرننگ افسران کا الیکشن قرار دیا لیکن پیپلز پارٹی سمیت تمام جماعتوں نے انتخابات پر تحفظات کے باوجوہ سسٹم کو بھی قبول کر لیا ہے اور کسی بھی احتجاجی تحریک کو جمہوریت کے اقدام سے بھی تعبیر کر رہے ہیں۔ اس وقت پاکستان میں اس بات پر اتفاق رائے ہے کہ کسی بھی غیر جمہوری اور غیر آئینی تبدیلی کو قبول نہیں کیا جائے گا۔ اس تناظر میں تحریک انصاف کا بھی دعویٰ یہی ہے کہ وہ نہ وسط مدتی انتخابات چاہتے ہیں اور نہ ہی جمہوریت کو ڈی ریل کرنا چاہتے ہیں تحریک انصاف کا مطالبہ یہ ہے کہ صرف چار حلقوں کے بیلٹ پیپر کو چیک کر لیا جائے۔ اس اعتبار سے بنیادی طور پر الیکشن کمشن کی ذمے داری ہے کہ وہ یہ ثابت کرے کہ الیکشن شفاف منعقد ہوئے ہیں۔ اگر صرف کراچی کی مثال کو سامنے رکھا جائے تو الیکشن کمشن ملک کے سب سے بڑے شہر کے لوگوں کو اپنی رائے کے اظہار کا حق دینے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔ اس کی ذمہ داری ان ’’پس پردہ‘‘ قوتوں پر بھی عائد ہوتی ہے جن کی مداخلت سے جمہوری نظام کو ڈی ریل کرنے کا خوف دلایا جا رہا ہے۔
اسلام آباد کے جلسے کے بعد عمران خان نے اب 25 مئی کو فیصل آباد میں جلسہ کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ راقم کو تحریک انصاف فیصل آباد کے ایم پی اے شیخ خرم شہزاد نے بتایا کہ ہم نے جلسے کی بھرپور تیاریاں کر لی ہیں اس جلسہ میں تقریباً 50-40 ہزار کے لگ بھگ افراد شریک ہوں گے عمران خان اس جلسے میں حکمرانوں کو مطالبات پورے کرنے کیلئے ایک ماہ کی مدت دیں گے اگر حکمرانوں نے عمران خان کے مطالبات کو تسلیم نہ کیا تو پھر ملک میں بھر میں دما دم مست قلندر ہو گا۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق عمران خان کے مطالبات بالکل درست ہیں جب عوامی مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا جائے گا تو پھر عوام بھی حکمرانوں کو اپنا حقیقی نمائندہ نہیں سمجھیں گے۔ جن چار حلقوں میں عمران خان انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کے ساتھ دوبارہ گنتی کروانا چاہتے ہیں اگر کروا دی جائے تو حکومت بھی سکون سے اپنا ایجنڈا پورا کرسکتی ہے اور اپوزیشن جماعتوں کے پاس حکومت مخالف کسی بھی قسم کی تحریک کا جواز نہیں رہ جاتا الیکشن کمشن کو اس ضمن میں اپنا کردار ادا کرتے ہوئے معاملہ ازخود نمٹانا دینا چاہئے تاکہ ملک میں کسی بھی قسم کی بدامنی کا کوئی اندیشہ باقی نہ رہے۔ عمران خان ایک عرصہ سے چار سیٹوں کے الیکشن میں دھاندلی کی بات کر رہے ہیں تو ایک دوسرے پر چڑھائی کرنے کے بجائے آپس کے اختلافی معاملات کو فی الفور ختم کرنا چاہئے کیونکہ یہ وقت سیاست کرنے کا نہیں بلکہ ملک بچانے کا ہے۔
یہ وقت ملک کو بچانے کا ہے
May 17, 2014